بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی حکومت کی جانب سے پیش کردہ سالانہ وفاقی بجٹ پر اعتراضات کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئی ایم ایف پروگرام کی بنیادی شرائط کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے جلیل اختر کو اپنے تحریری بیان میں آئی ایم ایف کے پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیریز نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ قومی بجٹ کے مختلف نکات پر اعتراضات اٹھائے۔
انہوں نے بجٹ میں تجویز کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو ملک کی معیشت کے لیے ’نقصان دہ مثال‘ قرار دیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے سالانہ بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا ہے جب سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار پاکستان آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کی تلاش میں ہے اور حکومت کو آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر ہی بجٹ پیش کرنا پڑا ہے۔
آئی ایم ایف نمائندہ نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ میں ٹیکس کے نظام کو وسیع کرنے کے موقع کو ضائع کیا گیا۔
ایستھر پیریز کے مطابق توانائی کے شعبے کے لیکویڈیٹی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو بجٹ کی وسیع حکمتِ عملی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
تاہم ایستھر پیریز کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف حکومت کے ساتھ بجٹ میں بہتری اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے پالیسیوں پر بات چیت میں مصروف ہے۔
آئی ایم ایف نے 6.5 بلین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 9 ویں اور 10ویں جائزوں کو اکٹھا کرنے کا اشارہ دیا ہے تاہم، اس پر پیش رفت دکھائی نہیں دی اور آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا حالیہ پروگرام 30 جون کو ختم ہونا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی مد میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔
اقتصادی امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان کو ایک وا ضح پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی آمدن کو بڑھانا ہوگا اور اپنے اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار عابد سلہری کہتے ہیں کہ پاکستان کا بجٹ خسارہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کے اخراجات اس کی آمدن سے زیادہ ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان محصولات اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدان سے زیادہ خرچ کررہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا پاکستان کو ایک اشارہ ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات کم کرے اور مجوزہ بجٹ میں دی گئی رعایتیں کم کرے تاکہ آمدنی بڑھ چکی ہے۔
عابد سلہری کہتے ہیں کہ مجوزہ بجٹ میں ایک لاکھ ڈالر پاکستان میں لانے کی صورت میں ذرائع نہ پوچھنے کے معاملے پر بھی آئی ایم ایف نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اُن کے بقول اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے بات چیت جاری رکھنا چاہتی ہے یا 30 جون کو آئی ایم ایف پروگرام ختم ہونے کے بعد اپنے موجودہ بجٹ پر ہی عمل کرے گی۔
عابد سلہری کہتے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کی تجویز کردہ شرائط پر عمل نہیں کرتی تو آئندہ پروگرام حاصل کرنے کی شرائط میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
'حکومت آئی ایم ایف کے اعتراضات پر غور کر رہی ہے'
وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی اور قومی اسمبلی کی خزانہ کمیٹی کے چیئرمین قیصر احمد شیخ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے سامنے آنے والے بجٹ اعتراضات پر غور کیا جا رہا ہے اور کوشش کی جائے گی کہ ان کا حل نکالا جائے۔
ایستھر پیریز کے اعتراضات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا معاملہ حساس اور پیچیده نوعیت کا ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ گفت و شنید سے اسے طے کیا جاسکے۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں اور موجودہ پروگرام 23 واں پروگرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیڈ لاک پیدا ہو، اس لیے دونوں اطراف سے لچک کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔
قیصر احمد شیخ نے آئی ایم ایف کی جانب سے بجٹ پر تعاون کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی منظوری سے عالمی ادارے کے اعتراضات کی کوئی راہ نکل آئے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر سے خود بات چیت کی ہے اور اس بنا پر وہ پرامید ہیں کہ پروگرام کی بحالی ممکن ہوجائے گی۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے بجٹ تفصیلات کا تبادلہ کیا ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ قرض پروگرام کی جلد بحالی ہوجائے گی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں پاتے ہیں تو حکومت کے پاس پلان بھی موجود ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ایک بار پھر ملک کے کم زرِمبادلہ ذخائر کی نشان دہی کرتے ہوئے ڈیفالٹ ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
تاہم وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار متعدد بار یہ دعوی کر چکے ہیں کہ پاکستان اپنی تمام تر ادائیگیاں وقت پر ممکن بنائے گا۔ بجٹ سے قبل اقتصادی جائزہ کے اجرا کے موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور اب اس حوالے سے قیاس آرائیوں کو ختم ہو جانا چاہیے۔