امریکہ اور بھارت کے اعلیٰ حکام وزیرِ اعظم نریندر مودی کے رواں ہفتے کے واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے بارے میں پر امید ہیں اور اسے دو طرفہ تعلقات میں مزید بہتری کی جانب ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
مودی 22 جون کو امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے اور اسی روز کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کریں گے۔
اس دورے کے دوران اسٹیٹ وزٹ کی سطح کی تقریبات منعقد کی جائیں گی جن میں مودی کا وائٹ ہاؤس میں اکیس گن کی سلامی سے استقبال بھی شامل ہے۔
دورے سے قبل بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں بہت پیش رفت ہوئی ہے۔
صحافیوں سےگفتگو میں جے شنکر کا کہنا تھا کہ آپ تعلقات میں ٹیکنالوجی کے حصے کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپ تعلقات میں تجارت کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپ سیاسی ہم آہنگی کو دیکھ سکتے ہیں اور آپ اسٹریٹجک مفادات کو دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔
مبصرین نئی دہلی اور واشنگٹن ڈی سی کے دو طرفہ تعاون کے حوالے سے چین کے عروج کو ایک اہم معاملہ قرار دے ر ہے ہیں۔
مودی ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات شدید کشیدہ ہیں اور ہمالیہ کی سرحدوں پر تین برس سے ان کے فوجی آنے سامنے ہیں۔ان کشیدہ تعلقات نے نئی دہلی کو واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ماضی کی ہچکچاہٹ کو ترک کرنے پر مائل کیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت ایشیا میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کے لیے آمادہ ہے اور اب وہ چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔
اس ضمن میں نئی دہلی میں قائم تحقیقی ادارے ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے نائب صدر ہرش پنت کہتے ہیں کہ انڈو پیسیفک میں اسٹریٹجک منظر نامے میں بہت ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ بھارت اور امریکہ دونوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انہیں حالات کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ قریب رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اسٹریٹجک وضاحت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے لیے امریکہ جیسے ہم خیال ملک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا ایک اسٹریٹجک ضرورت بن گیا ہے۔
توقع ہے کہ امریکہ کی جانب سے ہتھیاروں کی مشترکہ پیداوار سمیت جدید دفاعی امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی مودی کے دورے کا ایک اہم نتیجہ ہوگا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں بھارت میں فوجی طیاروں کے لیے جنرل الیکٹرک کی طرف سے جیٹ انجن تیار کرنے کا معاہدہ شامل ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک بھارت کی طرف سے امریکی ساختہ مسلح ڈرون کی ممکنہ خریداری پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دفاعی شراکت داری میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ امریکہ بھارت کی فوجی صلاحیتوں کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔
اس کے متعلق ’جندال اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز‘ کے ڈین سری رام چولیا کہتے ہیں کہ امریکہ چین کے مقابلے میں بھارت کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے وہ بھارت کی فوج کو جدید کرنے کی حمایت کرنا چاہتا ہے۔
’’یہی وجہ ہے کہ فریقین نے کچھ رکاوٹوں کو دور کر دیا ہے جو موجود تھیں اور دونوں کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ایک ہی مخالف ہے۔ اس مشترکہ مخالف کو پیچھے دھکیلنے کے لیے بہت زیادہ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے لیے روس کے فوجی سپلائر کے طور پر قابلِ عمل ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔ روس نے کئی دہائیوں سے بھارت کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے بھارت کے ملٹری ہارڈ ویئر کا بڑا حصہ فراہم کیا ہے۔ لیکن اب یہ مغربی پابندیوں کی وجہ سے کمزور ہوا ہے۔
مودی کے دورے کی بنیاد امریکی حکام کے بھارت کے حالیہ اعلیٰ سطحی دوروں سے رکھی گئی ہے۔
رواں ماہ کے شروع میں امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا تھا کہ دونوں ممالک دفاعی صنعتی تعاون کے لیے ایک روڈ میپ ترتیب دے رہے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں مودی کی اعلیٰ کاروباری شخصیات سے ملاقات بھی متوقع ہے کیوں کہ وہ امریکی کمپنیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ سیمی کنڈکٹرز کی سپلائی چین کے مقابلے میں دوسرے خطوں سے ممکن بنانا چاہتا ہے۔
تاہم امریکی کاروباروں کے لیے بھارت میں کارخانوں کی تعمیر کوئی آسان کام ثابت نہیں ہوا ہے اور وہ اس سلسلے میں اکثر ریگولیٹری اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کی شکایت کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے نئی دہلی کے دورے میں منگل کو ایک بھارتی بزنس فورم سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ممالک تجارت کو آسان بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
سلیوان نے کہا کہ اس دورے کے قابلِ عمل متوقع نتائج محض کاغذ پر تحریر نکات نہیں ہیں بلکہ انہیں بنیادی طور پر دفاعی تجارت، ہائی ٹیک تجارت اور دونوں ملکوں میں سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی غرض سے تیار کیا گیا ہے۔
امریکہ اور بھارت جن شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان میں کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت اور فائیو جی وائرلیس نیٹ ورکس شامل ہیں۔
خیال رہے کہ چین نے ان شعبوں میں غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ’یو ایس انڈیا بزنس کونسل‘ سے واشنگٹن ڈی سی میں خطاب کرتے ہوئے اس دورے کے بارے میں امید کا اظہار کیا۔
بلنکن نے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کا یہ ایک تاریخی سرکاری دورہ ہوگا جو صدر بائیڈن کے بیان کردہ 21 ویں صدی کے انتہائی اہم تعلق کو مزید مستحکم کرے گا۔
بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاست کے دور میں امریکہ اور بھارت ہمیشہ ایک صفحے پر نہیں رہے۔
بھارت نے یوکرین کی جارحیت کے بعد روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کا بھرپور دفاع کیا ہے۔
حالیہ مہینوں میں ماسکو نئی دہلی کے لیے سب سے بڑا خام تیل کا فراہم کنندہ بن گیا ہے جب کہ بھارت نے سستی توانائی کی سپلائی میں اضافہ کیا ہے۔
ناقدین نے بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی تنزلی کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔
مودی انتظامیہ پر اختلاف رائے کو دبانے اور ایسی تفرقہ انگیز پالیسیاں اپنانے کا الزام لگایا جاتا ہے جن سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک واضح ہوتا ہے۔
انسانی حقوق پر اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں امریکی محکمۂ خارجہ نے آزادیٴ اظہار اور بھارت میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے تشدد کے چیلنجوں پر بھی روشنی ڈالی تھی ۔
نئی دہلی نے اس رپورٹ کو ناقص اور جانب دارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کے دورے کے دوران امریکہ اور بھارت کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنے اختلافات سے نمٹتے ہوئے مشترکہ مفادات پر تعلقات استوار کریں کیوں کہ دونوں ممالک چین کا مقابلہ کرنے کی بڑی تصویر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں نئی دہلی میں قائم تحقیقی ادارے ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے نائب صدر ہرش پنت کہتے ہیں کہ جب یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو بہت زیادہ تشویش تھی کہ اس سے تعلقات پٹری سے اتر جائیں گے اور دونوں ممالک مختلف سمتوں میں جا رہے ہیں۔
ان کے بقول لیکن تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ زیادہ گہرے ہو گئے ہیں۔
ان کے خیال میں اس کی وجہ اس بات کا تسلیم کرنا ہے کہ بھارت کو درپیش تمام تر چیلنجوں کے باوجود یہ ایک اچھی شرط ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کو بھارت کے ساتھ تعلقات کو پروان چڑھائے کی ضرورت ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔