رسائی کے لنکس

امپائر ساتھ ملا کر میچ نہیں کھیلا جاتا، عمران خان


پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے اُن پر کراس لگایا ہے، لیکن وہ کسی کراس کو نہیں مانتے کیونکہ جمہوریت میں کراس صرف عوام لگاتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اسٹیبلشمںٹ حقیقتاً نیوٹرل ہو۔

بھارتی وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے متعلق عمران خان نے کہا کہ یہ موجودہ حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی ہے کہ بھارت امریکہ مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کو دہشتگردی کو فروغ دینے والا ملک کہا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بطور چیف جسٹس ایک غیرجانبدار چیف جسٹس ہونگے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن سے کہیں بھی کوئی مِس کیلکولیشن نہیں ہوئی۔ قومی اسمبلی سے بالکل ٹھیک استعفے دئیے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کے ساتھ ملکر کام کر رہی تھی۔ خاص طور پر ن لیگ کے ساتھ ملکر پنجاب کی حکومت گرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی صرف ایک صوبے میں حکومت بچی ہوئی تھی وہ بھی کسی بھی وقت میں گرائی جا سکتی تھی۔

جس پر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ عوام میں جائیں اور صحیح مینڈیٹ لے کر آئیں کیونکہ اِس کے بغیر حکومت چلانا بہت مشکل تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے آئین کے مطابق فیصلہ کیا تھا، لیکن اِس ملک میں آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو حکومت ہی نہیں مان رہی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ چودہ مئی کو انتخابات کرائے جائیں لیکن حکومت نے عدلیہ کے فیصلوں پر عمل نہیں کیا

کیا آپ کی گرفتاری پر پہلے جیسا ردِ عمل آ سکتا ہے؟

عمران خان کا کہنا تھا کہ اِس بارے میں وہ کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اِنہوں نے بہت سختی کی ہوئی ہے۔خوف کی فضا بنی ہوئی ہے۔ لوگوں کی پکڑ دھکڑ، گھر توڑ دیتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں، عورتوں اور بچوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے اور دین میں چادر اور چار دیواری کے تقدس کا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن یہ جو کر رہے ہیں اُس سے خوف کی فضا بنی ہوئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عورتوں پر تشدد کرتے ہیں، صرف لاہور میں پچاس عورتوں کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ جو حرکتیں کر رہے ہیں اِس سے تحریکِ انصاف کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے۔

ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے تیار ہیں؟

عمران خان نے جواب دیا کہ وہ ہر چیز کے لیے تیار ہیں کیونکہ اِس وقت پاکستان میں کوئی قانون نہیں ہے۔

اسٹیبلشمنٹ بات کیوں نہیں کر رہی؟

عمران خان سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلمشنٹ کا اُن سے رابطہ نہ کرنے کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ اُن کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے جب اُن کی حکومت گرائی تو تبھی اُنہیں محسوس ہو گیا تھا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑہتی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی ضمنی انتخابات جیت رہی تھی، سینتیس میں سے تیس نشستیں جیت گئی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ نے پیغام بھجوایا تھا کہ آپ کو اِس لیے نہیں ہٹایا تھا کہ آپ کو واپس آنے دینگے۔ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ عمران خان پر کراس لگا دیں۔ جو جنرل باجوہ کا منصوبہ تھا وہی جنرل عاصم کر رہے ہیں کہ اِس کو آنے نہیں دینا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے اندر ایسا نہیں ہوتا، جمہوریت میں کاٹا صرف عوام لگاتی ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کاٹے کو نہیں مانتے۔

قاضی فائز عیسٰی سے بطور چیف جسٹس کیا تحفظات ہیں؟

عمران خان کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہو گا جسٹس فائز عیسٰی کیسے چیف جسٹس بنتے ہیں۔ اللہ کرے کہ وہ ملک کے لیے غیر جانبدار رہ کر انصاف کریں اور غیر جانبدار چیف جسٹس بن جائیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک کو بہت ضرورت ہے ایسی عدلیہ کی جو تحفظ دے۔ اُُنہوں نے اُمید ظاہر کی کہ وہ بطور چیف جسٹس لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرینگے۔

کیا نیوٹرل اسٹیبلشمنٹ کا مطلب عمران خان کا ساتھ دینا ہے؟

عمران خان نے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو صاف شفاف انتخابات چاہتا ہے وہ کسی کی مدد نہیں چاہتا۔ وہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لے کر آئے تھے، ایمپائر ساتھ ملا کر میچ نہیں کھیلا جاتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری نے دیانتداری سے کبھی کوئی کام نہیں کیا، نہ کاروبار کیے، نہ حکومتیں چلائیں نہ انتخابات صحیح طرح لڑے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ کبھی کسی کے کاندھے پر چڑھ کر حکومت میں نہیں آنا چاہتے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ادارے مضبوط ہو ں ، صاف شفاف انتخاب ہو،جمہویت مضبوط، قانون کی حکمرانی ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کا مطلب ہی قانون کی حکمرانی ہے۔ وہ کسی کی سپورٹ نہیں چاہتے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشممنٹ اس ملک کے اندر واقعی نیوٹرل ہونی چاہئیے اور اُس کا کام ہے کہ ملک کے اندر صاف اور شفاف انتخابات ہوں تا کہ حقیقی جمہوریت جس کا مطلب ہے کہ حقیقی آزادی پاکستان میں آئے۔

کیا پی ٹی آئی کمزور ہو گئی ہے؟

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ دور میں پی ٹی آئی کی ٹیم کو کمزور ٹیم نہیں سمجھتے۔ اِس کی وجہ بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی اس وقت کمزور ہوتا ہے جب اُس کا ووٹ بینک کم ہوتا ہے۔ اُن کی رائے میں آج پی ٹی آئی کا جتنا ووٹ بینک ہے اُتنا کسی بھی پارٹی کا نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی مدد کر رہی ہے اور بارہ جماعتیں بھی اکٹھی ہیں لیکن اِس کے باجود سینتیس میں سے تیس ضمنی انتخابات جیتنے کا مطلب کیا ہے کہ سارے پولز یہ کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی کا ستر فیصد سے زائد ووٹ بینک ہے۔

عمران خان سے کہاں غلطی ہوئی؟

عمران خان کا کہنا تھا کہ جب وہ حکومت میں تھے تو حالات ٹھیک نہیں تھے۔ اُن کی حکومت اصلاحات کرنا چاہتی تھی، طاقتور کو قانون کے نیچے لانا چاہتی تھی اُس کے پاس جب تک واضح اکثریت نہ وہ وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ اسٹیٹس کو کا مقابلہ تب کیا جا سکتا ہے جب پبلک کا مینڈیٹ ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی ایک کمزور مخلوط حکومت تھی۔ وہ جب بھی کچھ کرنا چاہتے تھے تو اپنی چھوٹی سی اکثریت کو اکٹھا کرنے میں وقت لگ جاتا تھا۔

عمران خان نے کہا کہ اُنہیں فوری طور پر انتخابات میں چلے جانا چاہیے تھا اور تب ہی حکومت لینی تھی جب واضح اکثریت ہوتی بصورتِ دیگر وہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتے۔

عوام اور عدالتوں میں موقف تبدیل کیوں؟

عمران خان کی عدالت میں پیشی، رپورٹر نے کیا دیکھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00

عمران خان کہتے ہیں وہ چیلنج کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کبھی بھی یہ کہا ہو کہ احتجاج پرامن نہ ہو۔ اُنہوں نے ہمیشہ پرامن احتجاج کی بات کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن پر مقدمات پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں کہ اُن کی وجہ سے توڑ پھوڑ ہوئی ہے لیکن وہ چیلنج کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایک تقریر بتا دیں یا کسی کارکن کو کہا ہو کہ کسی نے انتشار کرنا ہے۔

امریکہ پر الزام بھی اور مدد بھی؟؟

عمران خان نے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ سے مدد نہیں مانگ رہے۔ اُنہوں نے ہمیشہ امریکہ سے اچھے تعلقات کی بات کی ہے۔ امریکہ ایک طاقت اور حقیقت ہے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ امریکہ کے ساتھ ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جو باتیں کیں وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہیں۔ سائفر ایک حقیقت ہے۔ امریکی عہدیدار نے پاکستان کےسفیر اسد مجید سےجو بات چیت کی وہ سرکاری بات چیت تھی کہ عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیں، نہیں تو پاکستان پر مشکل وقت آئے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ معاملہ کابینہ، ایوان اور نیشنل سیکورٹی کونسل میں رکھا گیا۔ طے ہوا کہ امریکہ پاکستان میں مداخلت کرتا ہے لیکن جو بعد میں چیزیں سامنے آئیں جو جنرل باجوہ کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ حسین حقانی کے ذریعے اُن کے خلاف لابی کر رہے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پاکستان کی بہتری میں ہیں۔ اُن کی کسی سے کوئی ذاتی لڑاتی نہیں ہے۔ اگر اُن کی حکومت گرائی گئی ہے تو وہ کہیں کہ تعلقات ٹھیک نہ ہوں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک کے تعلقات دنیا سےہوتے ہیں لوگوں کے مفادات کے لیے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کے فائدے میں ہے کہ پاکستان کے سب سے اچھے تعلقات ہو ں خاص طور پر امریکہ کے ساتھ۔ عمران خان کی رائے میں امریکی سینیٹرز اِس لیے اُن کے حق میں خطوط لکھ رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے ساتھ کھڑے ہیں۔

سی پیک سست روی کا شکار کیوں؟

عمران خان بتاتے ہیں کہ وہ اِس تاثر کو درست نہیں سمجھتے کہ اُن کے دورِ حکومت میں سی پیک سست روی کا شکار تھا بلکہ اُنہوں نے سی پیک کو اولین ترجیح دے رکھی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہوا کہ کرونا کی وجہ سے دو سال کے لیے چین بند ہو گیا تھا، چین کے قوانین اتنے سخت تھے کہ وہاں سے آمدورفت ختم ہو گئی تھی۔ اِن دو سالوں میں پوری دنیا سست روی کا شکار تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے ساڑھے تین سالوں میں سے دو سال کرونا کے رہے لیکن اِس کے باجوو اُن کی ترجیح سی پیک تھی۔

سی پیک پاکستانی معیشت کو بہتر کیوں نہیں کر پایا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:24:14 0:00

دوست ملک خلاف کیوں؟

سابق وزیرراعظم عمران خان کی رائے میں یہ ایک غلط تاثر ہے کہ پاکستان کے دوست ملک اُن کے خلاف ہیں۔ اگر دوست ملک اُن کے حق میں نہ ہوتے تو وہ کیسے سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے حق میں بات کرتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے دورِ حکومت میں دو او آئی سی کے اجلاس ہوئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان میں وزراء خارجہ کے دواجلاس ہوئے ہو ں۔ ایک کانفرنس سولہ سترہ سال قبل ہوئی تھی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، ایران، ترکی اور دیگر قاقتور ملک نہ چاہتے تو کیاایسا ہو سکتاتھا۔ اِن کانفرنس میں یہ ممالک بھی آئے اور چین کے وزیر خارجہ بھی آئے۔

امریکہ بھارت مشترکہ بیان

عمران خان نے کہاکہ اَب کیا صورتحال ہے۔ بھارت اور امریکہ کا جو مشترکہ بیان آیا ہے۔ اُنہوں نے پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگا دیا ہے۔ امریکہ نے بھارت اور کشمیر میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات نہیں کی۔ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو دہشتگری کو فروغ دیتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کہاں گئی۔

کشمیر کی خصوصی اہمیت کیوں ختم ہوئی؟

عمران خان نے اِس تاثر کی نفی کیاور کہایہ اُن کے خلاف غلط پراپیگنڈا ہے کہ اُنہوں نے امریکہ میں کسی خفیہ دستاویزات پر دستخط کیے جس کے بعد سے بھارت نے کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اور ذرائع ابلاغ میں بھی بات کی۔جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کوشش کرینگے۔

XS
SM
MD
LG