رسائی کے لنکس

روسی بغاوت: 'پوٹن کی کمزوریاں بے نقاب ہو گئی ہیں'


روس میں واگنر گروپ کی بغاوت کو صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے ان کے دو دہائیوں سے زیادہ کے اقتدار میں سب سے بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

اگرچہ بغاوت اس وقت ختم ہو گئی جب نجی ملیشیا واگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن نے ماسکو کے ساتھ بیلاروس جلاوطنی کا معاہدہ کر کے پسپائی کا اعلان کیا لیکن اس مختصر بغاوت نے روسی صدر اور اس کی فوج کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

روسی حکومت کی خامیاں اس وقت نمایاں ہوئیں جب واگنر گروپ کے سپاہی بغیر کسی رکاوٹ کے روسی شہر روستوف آن ڈان میں داخل ہوئے اور ماسکو کی طرف سینکڑوں میل آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے جب کہ روسی فوج کو دارالحکومت کے دفاع کے لیے اقدامات کرنے پڑے۔

بغاوت ختم ہونے سے قبل پوٹن نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ مسلح بغاوت کرنے والوں کو سزا دیں گے۔

قوم سے خطاب میں روسی صدر نے بغاوت کو خیانت اور غداری قرار دیا۔

روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا کہ معاہدے کے تحت پریگوزن کی روانگی اور واگنر گروپ کے جنگجوؤں کو چھوڑنے کا فیصلہ پوٹن نے اس لیے کیا کیوں کہ ان کا بڑا ہدف خون ریزی اور غیر متوقع نتائج کے ساتھ اندرونی تصادم سے بچنا تھا۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پوٹن کے لیے خطرہ یہ ہے کہ وہ کمزور نظر آئیں گے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یوکرین میں سابق امریکی سفیر جان ہربسٹ نے نشریاتی ادارے 'سی این این' پر کہا کہ اس معاملے سے پوٹن کی اتھارٹی کی حیثیت ہمیشہ کے لیے کم ہوگئی ہے۔

معاہدے کے تحت واگنر گروپ کے کمانڈر کے خلاف مسلح بغاوت کرنے کے الزامات کو خارج کر دیا جائے گا اور حکومت نجی گروپ کے ان جنگجوؤں کے خلاف مقدمہ نہیں چلائے گی جنہوں نے بغاوت میں حصہ لیا ۔اور جو لوگ بغاوت میں شامل نہیں ہوئے انہیں وزارتِ دفاع کی طرف سے نئے معاہدے کی پیشکش کی جائے گی۔

دریں اثنا واگنر کے کمانڈر پریگوزن نے اپنے فوجیوں کو یوکرین میں اپنے فیلڈ کیمپوں میں واپس جانے کا حکم دیا جہاں وہ روسی فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑ ائی میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس ساری صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ میں قائم ایک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ پریگوزن کی بغاوت نے کریملن اور روسی وزارت دفاع کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

جنگوں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک 'دی انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار' کا کہنا تھا کہ کریملن کو بغاوت کا ایک مربوط جواب دینے میں جدوجہد کرنی پڑی۔انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس کی ایک ممکنہ وجہ یوکرین میں روس کے بھاری نقصانات کا اثر تھا۔

تھنک ٹینک نے کہا کہ اگر پریگوزن حکم دیتے تو واگنر ملیشیا ممکنہ طور پر ماسکو کے مضافات میں پہنچ سکتی تھی۔

پریگوزین نے روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ یوکرین میں 16 ماہ سے جاری جنگ کے دوران روسی وزیر دفاع پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

اگر پوٹن وزیر دفاع شوئیگو کی برطرفی پر راضی ہو جاتے تو یہ روسی صدر کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا تھا کیوں کہ پوٹن نےباغی رہنما پریگوزن کو پشت پر چھرا گھونپنے والا غدار قرار دیا تھا۔

'اے پی' کے مطابق امریکہ کے پاس خفیہ معلومات موجود تھیں کہ پریگوزن کچھ عرصے سے روس کے ساتھ سرحد کے قریب اپنی افواج تیار کر رہے تھے۔

یہ انٹیلی جینس پریگوزن کے اس دعوے سے متصادم ہے کہ واگنر گروپ کی بغاوت روسی فوج کی طرف سے جمعے کو یوکرین میں ان کے کیمپوں پر حملے کا ردِعمل تھی۔

روسی میڈیا کے مطابق بغاوت کے دوران واگنر کے فوجیوں نے کئی ہیلی کاپٹروں اور ایک فوجی مواصلاتی طیارہ کو مار گرایا تھا۔

روس کی وزارت دفاع نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

'انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار' نے کہا کہ ماسکو اور باغی گروپ کے درمیان معاہدے نے بحران کو ختم کیا ہے۔

'تھنک ٹینک' کے مطابق اس بات کا بہت امکان ہے کہ یہ معاہدہ واگنر گروپ کو اسکی موجودہ شکل میں پریگوزن کی زیر قیادت آزاد ایکٹرکے طور پر ختم کر دے گا حالاںکہ تنظیم کے عناصر موجودہ اور نئی صلاحیتوں کے تحت برقرار رہ سکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG