پاکستان کی قومی اسمبلی نے مالی سال 24-2023 کے لیے 14 ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔
اتوار کو قومی اسمبلی کے جاری بجٹ اجلاس میں مالیاتی بل میں نو ترامیم بھی منظور کی گئیں جن میں سے آٹھ ترامیم حکومتی اراکین جب کہ ایک ترمیم حزبِ اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔
ان ترامیم کے تحت آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 215 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے اور محصولات کا ہدف نو ہزار 200 سے بڑھا کر نوہزار 415 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
وفاق سے نیشنل فنانس کمیشن کے تحت صوبوں کے فنڈز کو پانچ ہزار 276 ارب سے بڑھا کر پانچ ہزار390 ارب کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ایک اور ترمیم کے ذریعے بجٹ میں پینشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 900 ارب ہوگا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) 459 ارب کی بجائے 466 ارب کر دیے گئے۔
بجٹ میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی 50 روپے فی لیٹر سے بڑھاکر 60 روپے فی لیٹر تک کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
فنانس بل میں ایک ترمیم منظور کی گئی ہے جس کے تحت ٹیکس کی ادائیگی کے 3200 ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا تاہم متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔
اتوار کو بجٹ اجلاس پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ معاشی اصلاحات کی طرف جانا ہو گا ورنہ ایک وقت آئے گا جب یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پینشن اصلاحات ضروری ہیں کیوں کہ 800 ارب روپے سالانہ تک اس کا حجم بڑھ چکا ہے۔ کئی ممالک کے برعکس پاکستان میں پینشن کے حوالے سے صورتِ حال بہتر ہے۔
وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران دو پینشن کی صورت میں ایک پینشن وصول کر سکیں گے جب کہ ایک سے 16 گریڈ والے ملازمین پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اختتامی بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے انتہائی نامساعد حالات میں بجٹ منظور کیا ہے اور پر امید ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں پچھلے دور میں جو تباہی کی گئی موجودہ حکومت اس کا ازالہ کرے گی۔
خیال رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نو جون کو پیش کردہ وفاقی بجٹ میں متعدد تبدیلیاں کی تھیں جن کے بارے میں ہفتے کو وزیر خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا تھا۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے آئی ایم ایف پروگرام کی بنیادی شرائط کے خلاف قرار دیا تھا۔
رواں ہفتے ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے فرانس میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس کے موقع پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کی تھی اور انہیں ملک کے معاشی نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔
حکومتی رہنما پر امید ہیں کہ 30 جون کو آئی ایم ایف پروگرام کی مدت مکمل ہونے سے قبل پاکستان کو قرض کی ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط حاصل ہو جائے گی۔
اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ لو سے ملاقات کی تھی اور اطلاعات کے مطابق ان سے بھی آئی ایم ایف سے فنڈز کے اجراء کے لیے امریکی مدد کی درخواست کی۔