فرانس میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شمالی افریقی نژاد نوجوان کی تدفین کے بعد بھی پُر تشدد مظاہروں کا سلسلہ اتوار کو بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے ہفتے کی رات پیرس کے مضافاتی علاقے لاہے لیس روزس کے میئر کے گھر کو اس وقت آگ لگا دی جب ان کی اہلیہ اور بچے گھر میں موجود تھے۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک جلتی ہوئی گاڑی ان کے گھر سے ٹکرائی۔ فرانسیسی رہنماوں نے اس حملے کی پر زور مذمت کی ہے جبکہ پولیس نے اس واقعے کے بعد مجرمانہ عمل کی تحقیقات کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔
فرانس کے مضافات میں منگل کو 17 سالہ ناہیل کی ہلاکت کے بعد سے جاری پر تشدد احتجاج رائٹرز خبر رساں ادارے کے مطابق ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں نسلی مسائل کے حل کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔
پر تشدد احتجاج کا اثر ملک کے سیاحتی شعبے پر بھی پڑ رہا ہے۔ملک بھر میں ہوٹلز اور ریستورانتس میں لوگ اپنی بکنگ کینسل کر رہے ہیں جب کہ حالیہ بد امنی کے دوران کچھ ہوٹلز کو نقصان بھی پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ منگل کو فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافات میں پولیس کی فائرنگ سے ایک 17 سالہ نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک چیکنگ کے دوران پولیس نے نوجوان کو روکا لیکن اس نے گاڑی دوڑا دی تھی۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد ہوٹل اور کیٹرنگ انڈسٹری کے آجروں کی مرکزی ایسوسی ایشن کے صدر تھیری مارکس کہتے ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں ہوٹلوں کو ریزرویشن کی منسوخی کی ایک لہر کا سامنا ہے۔
تھیری مارکس کے مطابق انہیں انڈسٹری کے ان پیشہ ور افراد سے روزانہ الرٹس مل رہے ہیں جن کے کاروبار بشمول کچھ ریستورانتس اور کیفیز پر حملے کیے گئے ہیں، انہیں لوٹا اور نقصان پہنچایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری یہ جگہیں مہمان نوازی کے مقامات ہیں اور کبھی کبھار یہ پناہ گزینوں کے لیے اور بحرانی صورتِ حال میں مدد کی جگہیں بھی ہوتی ہیں۔ انہیں اس غصے کا نتیجہ نہیں بھگتنا چاہیے جو انہوں نے نہیں بھڑکایا ہے۔ ان کے بقول وہ ان اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔
مارکس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ہوٹل اور کیٹرنگ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔
دوسری جانب فرانس کی ریٹیل فیڈریشن (ایف سی ڈی) نے بھی اپنے اسٹورز کے اطراف پولیس کوتعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایف سی ڈی کے مینیجنگ ڈائریکٹر جیکس کریسل کا کہنا تھا کہ فسادات میں لوٹ مار کے حقیقی مناظر کو جنم دیا اور سینکڑوں درمیانے اور بڑے فوڈ اور نان فوڈ اسٹورز کو نقصان پہنچایا گیا، لوٹا گیا یا جلا دیا گیا۔
ان کے بقول یہ واقعات انتہائی سنگین ہیں اور اس کی بہت بھاری قیمت ہے۔ انہوں نے معیشت، داخلہ اور تجارت کے وزرا سے اس معاملے پر کارروائی کرنے کی بھی اپیل کی۔
پیرس کے ایوان صنعت و تجارت کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ اس کی ٹیمیں متحرک ہو کر متاثرہ کمپنیوں کے ٹریڈرز اور مینیجرز کو ضروری مدد فراہم کریں بالخصوص ان کے آپریشنز جاری رکھنے اور انشورنس معاوضے کی صورت میں۔
واضح رہے کہ پرتشدد مظاہروں کی روک تھام کے لیے فرانسیسی حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے پلیٹ فارمز سے حساس نوعیت کا مواد ہٹانے کی ہدایت کی ہے جب کہ صدر ایمانوئل میخواں نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے نو عمر بچوں کو گھروں میں ہی روک کر رکھیں۔
سیکیورٹی خدشات
ادھر آزاد ہوٹلوں اور ریستورانوں کی تنظیم جی ایچ آر نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ "غیر ملکی (ٹی وی نیٹ ورکس) نے پیرس میں آگ اور خون کی تصاویر دکھانا شروع کردی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔"
تنظیم کے مینیجنگ ڈائریکٹر فرانک ٹروئے نے سوال کیا کہ کیا تشدد اور فسادات جاری رہیں گے اور منسوخی کی وجہ بنیں گے؟ یہ خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاص طور پر ایشیائی سیاح جو سیکیورٹی کے بارے میں بہت فکر مند ہیں وہ اپنے سفر کو ملتوی کرنے یا منسوخ کرنے سے ہچکچاتے نہیں ہیں۔
"پروٹورازم" فرم کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈیڈیئر آخینو کا کہنا ہے کہ بیلجیئم اور برطانیہ جیسے ممالک کے سیاح جو ہمیں اچھے سے جانتے ہیں اور جنہیں اپنے مضافاتی علاقوں میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ صورتِ حال کو سمجھ سکیں گے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔