بھارت کا خلائی مشن چندریان تھری چاند کے سفر پر روانہ ہو گیا ہے۔ یہ بھارت کی چاند کی سطح تک پہنچنے کی دوسری کوشش ہے اور اس سے پہلے بھیجا گیا مشن چندریان ٹو ناکام رہا تھا۔
آئی ایس آر اواس مشن میں چاند کی سطح پر سائنسی ڈیٹا اکھٹا کرنے والی روبوٹک گاڑی کے مشن ’چندریان تھری‘ کو جمعے کے روز ڈھائی بجے ریاست آندھرا پردیش سے روانہ ہوا ۔
بھارت نے چار برس قبل 2019 میں ’چندریان ٹو ‘مشن چاند پر روانہ کیا تھا تاہم یہ مشن چاند کی سطح پر چندریان-ٹو کی لینڈنگ کے دروان تباہی کے باعث ناکام ہو گیا تھا۔اس بار دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ مشن کی ناکامی کی وجہ سے چندریان-تھری مشن میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
چندریان ٹو اور تھر ی کی بناوٹ تو بالکل ایک جیسی رکھی گئی ہے البتہ اس میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
اس میں سب سے بڑی تبدیلی تو یہ ہے کہ چاند تک پہنچنے کے لیے کونسا راکٹ استعمال کیا جائے گا۔ اس مشن میں جیوسینکروناس سیٹلائٹ لانچ وہیکل مارک تھری (جی ایس ایل وی تھری) استعمال کیا جا رہا ہے۔
چندریان ٹو میں چاند پر اترنے کے لیے لینڈر وِکرم، چاند کی سطح پر چلنے والی گاڑی ’پرگیان‘ اور چاند کے مدار میں گھومنے والا مصنوعی سیارچہ شامل تھے۔
جب کہ چندریان تھری میں صرف لینڈر اور چاند گاڑی موجود ہیں۔
خیال رہے کہ چندریان ٹو میں بھیجا گیا سیارچہ اب بھی چاند کے مدار میں موجود ہے۔ اسی سیارچے کو چندریان تھری سے کمیونی کیشن کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
چندریان ٹو میں چاند کی سطح پر اترتے وقت معاونت کے لیے ایک کیمرہ نصب تھا۔ لیکن اس بار دو کیمروں کا استعمال کیا گیا ہے۔
اس بار چاند کی سطح پر اترنے کے لیے لینڈر وِکرم کی ٹانگیں گزشتہ ماڈل کے مقابلے مین زیادہ مضبوط بنائی گئی ہیں۔
بھارتی خلائی ادارے آئی ایس آر او کے سربراہ ایس سوماناتھ کا کہنا تھا کہ لینڈر وکرم کی اترنے کی رفتار کو دو میٹر فی سیکنڈ سے بڑھا کر تین میٹر فی سیکنڈ کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لینڈر وِکرم تین میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے بھی چاند کی سطح پر بحفاظت اتر سکے گا۔
لینڈر وِکرم کی توانائی کی گنجائش کو بھی بڑھا دیا گیا ہےجس سے اس کے سفر کرنے کی استعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس طرح لینڈنگ کے دوران کسی رکاوٹ کی صورت میں دوبارہ لینڈنگ کی کوشش بھی کی جاسکے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس بار مشن کی لینڈنگ اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ اگر کچھ غیر متوقع بھی ہو جائے تو خلائی گاڑی کو چاند پر اتارنے میں کامیابی حاصل ہو جائے۔
انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن نے اس مشن کے لیے جمعے کو دن دو بج کر 35 منٹ کا ٹائم مقرر کیا ہے۔ چندریان تھری کو خلیج بنگال کے ساحل پر واقع جزیرے شری ہری کوٹا میں ستیشن دھون اسپیس اسٹیشن سے روانہ کیا جائے گا۔
زمین سے روانہ ہونے کے 16 منٹ بعد خلائی مشن کا اگلا حصہ راکٹ سے الگ ہو جائے گا اور یہ زمین کے مدار میں گردش شروع کر دے گا۔ یہ زمین کے مدار میں چار سے پانچ چکر لگائے گا۔ اس دوران یہ زمین کے سب سے قریب آنے پر 170 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا۔ چاند کی جانب بڑھتے ہوئے زمین سے اس کا فاصلہ 36 ہزار کلو میٹر تک بڑھ جائے گا۔
یہ مشن لگ بھگ ایک ماہ میں چاند کے مدار میں داخل ہوگا۔چاند کے مدار میں مقررہ مقام پر پہنچنے پر گاڑی کو لینڈر کی مدد سے چاند کی سطح پر اتارا جائے گا۔
بھارت کے خلائی ادارے کے مطابق یہ مشن 23 یا 24 اگست کو ممکنہ طور پر چاند کے قطب جنوبی پر اتارا جائے گا۔چاند کے قطب جنوبی کو قطب شمالی سے زیادہ وسیع قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں پانی ملنے کے امکانات بھی ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔
سطح پر کامیابی سے اترنے کے بعد اس میں موجود چاند گاڑی باہر آئے گی۔ اس گاڑی کے چھ پہیے ہیں۔ یہ گاڑی لگ بھگ دو ہفتوں تک چاند کی سطح پر چلتی رہے گی۔
اس گاڑی میں متعدد کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کی تصاویر یہ زمین پر ارسال کرے گی۔
بھارت کی خلائی ایجنسی نے 2008 میں چندریان-ون مشن لانچ کیا تھا۔ اس مشن کے ذریعے چاند کے مدار میں رہتے ہوئے چاند پر پانی کے مالیکیول تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس کے 11 برس بعد 2019 میں بھارتی خلائی ادارے نے چندریان-ٹو مشن لانچ کیا جس کا مقصد ستمبر 2019 میں چاند کی سطح پر اترنا تھا۔ البتہ یہ مشن اپنے آخری مراحل میں اس وقت ناکام ہوا تھا جب اس میں موجود لینڈر بہت زیادہ تیز رفتار سے چاند کی سطح سے ٹکرا کر ناکارہ ہو گیا تھا۔
اگر بھارت کی خلائی گاڑی چاند کی سطح پر اتر جاتی ہے تو یہ چاند تک رسائی حاصل کرنا والا دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔ اس سے قبل سوویت یونین، امریکہ اور چین کامیابی سے اپنے مشن چاند کی سطح پر اتار چکے ہیں۔
واضح رہے کہ چاند پر 1972 میں آخری بار انسان نے قدم رکھا تھا۔ یہ تین امریکی خلا نورد تھے جو اپالو 17 کے ذریعے وہاں گئے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ جانور بھی چاند پر جا کر زمین پر واپس آ چکے ہیں۔
بھارتی سائنس دان یہ امید کرتے رہے ہیں کہ چندریان کی کامیابی سے چاند پر بھارت کا انسانی مشن بھیجنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اگلی منزل سرخ سیارہ مریخ ہو گی جہاں بالآخر انسانی کالونیاں بنیں گی۔
امریکہ کا خلائی ادارہ ’ناسا‘ کے مطابق امریکہ بھی دو سے تین دہائیوں کے اندر مریخ پر انسان اتارنے کے لیے کام کررہا ہے۔
تاہم یہ بہت کٹھن کام ہے کیوں کہ زمین سے مریخ کا فاصلہ 22 کروڑ 50 لاکھ کلومیٹر ہے جب کہ چاند محض تین لاکھ 80 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
اگر چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں پانی مل جاتا ہے تو مریخ کے سفر میں چاند ایک پڑاؤ کا کام دے گا اور اسے ان ٹیکنالوجیز کو ٹیسٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا جنہیں سائنس دان مریخ پر لے جانا چاہتے ہوں گے۔
بھارت کے چندریان ٹو مشن پر مجموعی طور پر 14 کروڑ ڈالر لاگت آئی تھی۔ یہ چاند پر مشن بھیجنے والے دوسرے تمام ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم لاگت تھی۔ بھارت نے اس مشن میں بھی استعمال کی جانے والی گاڑیاں اور آلات خود تیار کیے تھے۔ بھارتی خلائی ادارے کے مطابق چندریان تھری کی تیاری پر ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکہ نے اپنے اپالو مشن میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ صرف کیے تھے۔
اگرچندریان مشن کامیاب ہو جاتا ہے تو چاند پر سستے مشن بھیجنے کا راستہ کھل سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مشن اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ اب پرائیویٹ سیکٹر خلا میں سرمایہ کاری کا سوچ رہا ہے جن کے سامنے اخراجات میں کمی بہت اہمیت رکھتی ہے۔
چندریان تھری کی کامیابی کی صورت میں بھارت میں نجی خلائی سفر کے شعبے میں سرمایہ کاری کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔