فلسطینی صدر محمود عباس نے بدھ کے روز مغربی کنارے کے شہر جنین کا دورہ کیا ، جب کہ تین روز قبل ان کے تین سینئیر عہدے دارایک جنازے سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ جہاں لوگ اسرائیلی حملے پر ان کے جواب سے غیر مطمئن اور مشتعل تھے
ہجوم کا یہ اشتعال اس سے قبل اسرائیل کی ایک دو روزہ کارروائی میں فلسطینی جنگجووں کی ہلاکت کا رد عمل تھا جس نے فلسطینی حکام کی سخت غیر مقبولیت اورمختلف فلسطینی دھڑوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کو اجاگر کیا ۔
عباس کی فتح پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے تین ارکان کوجنازے سے اس وقت بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا جب ہزاروں سوگواروں نے ان کے لئے "نکل جاؤ،نکل جاؤ"کے نعرے لگا ئے ۔
87 سالہ عباس نے، جنہوں نے عہدہ چھوڑنے کے دباؤ کو مسترد کر دیا ہے، جنین پناہ گزین کیمپ کی داخلی گزرگاہ پر واقع قبرستان کا دورہ کیا جہاں نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔
اپنے خصوصی صدارتی گارڈز کی حفاظت میں انہوں نے کیمپ کے کنارے پر ہجوم سے خطاب کیا، جہاں ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور جلی ہوئی عمارتیں مقبوضہ مغربی کنارے میں 20 برسوں میں اسرائیل کی سب سے بڑی کارروائی کی شدت کی گواہ ہیں ۔
عباس نے کہا، "بہادر جنین کیمپ نے جارحیت کے خلاف کھڑے ہو کر اپنی جانیں قربان کیں اور وطن کی خاطر اپنا سب کچھ پیش کر دیا۔"انہوں نے ہجوم سے کہا کہ کیمپ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔
اگرچہ عباس نے جنین پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کے ایک معاہدے کو معطل کر رہے ہیں، بہت سے فلسطینی مغربی کنارے میں تشدد کے پھیلنے کے بعد ان کی کار کردگی سے ناامید ہو چکے ہیں۔
کیمپ میں موجود ایک شخص نے جس نے سیکیورٹی فورسز کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا ، کہا کہ "وہ ان تمام برسوں میں کہاں تھے؟ انہیں ہماری پرواہ نہیں ہے۔"
ایک سال سے زیادہ عرصے سے جنین یا نابلس جیسے شہروں میں اسرائیلی چھاپے معمول بن چکے ہیں۔ سینکڑوں فلسطینی، زیادہ تر جنگجو لیکن بہت سے عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں، جب کہ فلسطینی حملوں کے ایک سلسلےمیں درجنوں اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی، جو تیس سال قبل اوسلو امن معاہدے کے بعد قائم کی گئی تھی، مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر محدود طریقے سے حکومت کرتی ہے، جن میں جنین بھی شامل ہے لیکن وہ اسرائیلی چھاپوں کو روکنے یا عسکریت پسند گروپوں کو کنٹرول کرنے میں بے بس رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے جنازے کے دوران دوسرے دھڑوں کے ساتھ کشیدگی کے بعد جنین میں عباس کی اپنی صدارتی گارڈ یونٹ کے ارکان سمیت فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز کو بڑی تعداد میں متعین کیا گیا تھا۔
حماس، اسلامی تحریک جو غزہ کو کنٹرول کرتی ہے اور ایرانی حمایت یافتہ اسلامی جہاد، طویل عرصے سے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اختلافات کا شکار ہیں لیکن عباس کو اپنی ہی جماعت الفتح کے اندر سے بڑھتی ہوئی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، جس کا ایک مسلح ونگ بھی ہے جو جنین میں سرگرم ہے۔
(اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے )