پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایک شخص کی مبینہ طور پر آن لائن لون کمپنی سے قرض کی وجہ سے خود کشی کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اسلام آباد میں دو کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپہ مار کر کمپیوٹرز اور دیگر مواد قبضے میں لے لیا ہے۔
پاکستان میں کئی آن لائن لون ایپس کی وجہ سے سینکڑوں افراد قرض میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قرض پر شرح سود میں اضافے اور خفیہ شرائط کی وجہ سے رقم واپس کرنے والا فرد کئی گنا رقم ادا کرنے کے باوجود بھی مقروض ہی رہتا ہے۔
اگر آپ پاکستان میں گوگل پلے اسٹور کے ایپس پر نظر ڈالیں تو آن لائن قرض دینے والی ایپس زیادہ تلاش کی جانے والی ایپس میں شامل ہیں۔ پلے اسٹور پر موجود ان کمپنیوں میں سے کون سی کمپنی لائسنس یافتہ ہے اور کون سی نہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
آن لائن لون ایپس سے قرض حاصل کرنے والا شخص اس دلدل میں کیسے پھنس جاتا ہے؟ اس بارے میں جب ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم راولپنڈی عبدالرؤف چوہدری سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی ایپس سے رقوم لینے والے اکثر شرائط پڑھے بغیر انہیں اپنی کانٹیکٹ لسٹ، پکچر گیلری اور دیگر مواد تک رسائی دے دیتے ہیں۔
قرض لینے والے شرائط پڑھے بغیر دستخط کر دیتے ہیں
ان کے بقول اس کے علاوہ یہ لوگ قرض حاصل کرنے کے لیے اپنے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کی معلومات بھی بطور ضامن لکھوا دیتے ہیں۔ زیادہ تر کمپنیوں کی جانب سے بہت سی خفیہ شرائط بھی ہوتی ہیں جن پر قرض حاصل کرنے والے افراد رقم کے حصول میں جلدی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے بغیر دیکھے دستخط کردیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کئی کیسز میں یہ دیکھا گیا کہ قرض لینے والے کو واپسی کے لیے 90 دن کا وقت دیا گیا تھا لیکن کمپنی نے محض ایک سے دو ہفتوں کے بعد ہی رقم واپسی کے مطالبات شروع کردیے۔ ایسی صورت میں کمپنی کی جانب سے انہیں معاہدے کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اصل رقم کا سود ادا کرنا ہے۔
ان کے بقول کئی لوگوں کو قرض کی مدت میں توسیع کے لیے کچھ رقم کا کہا جاتا ہے اور ایکسٹینشن منی کا کہہ کر مزید مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس رقم پر ہر دن کی بنیاد پر سود وصول کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں ہزاروں میں لی گئی رقم لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے اور قرض لینے والا مزید دلدل میں پھنس جاتا ہے۔
عبدالرؤف چوہدری نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت اس سلسلے میں کافی شکایات موصول ہوئی ہیں جن کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ راول پنڈی میں ہونے والی خودکشی کی بھی تحقیقات کررہے ہیں اور دو کمپنیوں کے دفاتر پر ہم نے کارروائی بھی کی ہے اوران کا تمام ریکارڈ قبضہ میں لے کر مکمل چھان بین کی جا رہی ہے۔
اکثر لون کمپنیوں کے پاس سیکیورٹی کلیئرنس نہیں ہے
عبدالرؤف چوہدری نے کہا کہ ان ایپس کا اس طرح آزادانہ طور پر کام کرنا درست نہیں ہے، ان کی باقاعدہ سیکیورٹی کلیئرنس ہونے کے بعد انہیں گوگل پلے سٹور پر آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کو مختلف طرح سے لوٹتے ہیں۔ جب کوئی ان کا ایپ ڈاؤن لوڈ کرتا ہے تو وہ ان کی کانٹیکٹ لسٹ، پکچر گیلری کے ساتھ ساتھ واٹس ایپ اور دیگر کئی ایپس تک بھی رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسے کیسز دیکھنے میں بھی آئے ہیں جس میں کسی شخص کے صرف ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے سے خودبخود اس کا قرضہ اپلائی ہو گیا اور چند دن بعد اسے کالز آنا شروع ہوگئیں کہ آپ نے قرضہ لیا ہے، اسے واپس کریں۔ اس کے بعد گالم گلوچ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور جب وہ شخص نمبر بلاک کرتا ہے تو اس کے تمام عزیز رشتہ داروں اور دفتر والوں کو کالز جانا شروع ہوجاتی ہیں۔ اور اگر اس کے بعد بھی جواب نہ ملے تو اس کی پکچر گیلری سے گھر کی خواتین کی تصاویر حاصل کرکے انہیں فوٹو شاپ ذریعے عریاں بنا کر وائرل کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ہر کمپنی کا طریقہ کار مختلف ہے اور ان کے پاس بہت سے تربیت یافتہ افراد بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ایپس کے سلسلے میں یہ تحقیقات ہونا ضروری ہیں کہ ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آ رہا ہے کیونکہ ایس ای سی پی کے مطابق لائسنس یافتہ اور غیرقانونی کمپنیوں نے 112 ارب روپے کے قرض دے رکھے ہیں۔ اس بات کی تحقیقات ہونا بھی ضروری ہیں کہ اربوں روپے کی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔ ہم اس معاملہ کی چھان بین بھی کررہے ہیں کہ یہ سرمایہ کہاں سے آ رہا ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ بیرون ملک سے آ رہا ہے جس کی چھان بین ہونا باقی ہے۔
قرض وصولی کے لیے دھمکیوں اور بلیک میلنگ کا حربہ
ان ایپس سے متاثرہ ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان ایپس کمپنیوں نے وصولی کے لیے ایسے افراد کو ملازم رکھا ہوا ہے جن کا کام ہی رقم نکلوانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کے پاس کیونکہ قرض لینے والے کا مکمل ڈیٹا موجود ہوتا ہے لہذا وہ ان کے قریبی افراد کو ان کے مقروض ہونے کا بتا کر بلیک میل کرتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر قرض لینے والے کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اس کے دفتر کے ساتھیوں اور افسران کو بتا دیا جائے گا۔ جبکہ زیادہ تر کو یہ کہہ کر بلیک میل کیا جاتا ہے کہ ان کے رشتہ داروں کو بتایا جائے گا۔
وصولی کرنے والوں کا ایک اور ہتھیار دباؤ ڈالنا اور بدتمیزی کرنا ہے۔ ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں دن اور رات کی تفریق کے بغیر انہیں لگاتار کالز کرکے ادائیگی کا کہا جاتا ہے اور نہ دینے کی صورت میں بدنام کرنے اور بعض واقعات میں اغوا کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔
اس طرح کی صورت حال کے نتیجے میں راول پنڈی میں ہونے والے سانحے جیسے واقعات پیش آتے ہیں جس میں 42 سالہ مسعود نامی شخص نے مبینہ طور پر دھمکیوں کے باعث خودکشی کر لی۔ مسعود کی اہلیہ کے مطابق آن لائن ایپس والے دھمکیاں دے رہے تھے اور اہل خانہ کی تصاویر وائرل کرنے کا کہہ رہے تھے۔
مسعود کے کیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق مسعود نےایک آن لائن کمپنی سے قرض لیا جس پر سود زیادہ ہونے کے بعد اتارنے کے لیے ایک اور ایپ سے قرض لیا جس کے بعد وہ اس قرض میں مزید دھنستا چلا گیا۔ مسعود نے صرف ان ایپس سے ہی نہیں بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی قرض لے رکھا تھا اور ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی کا بھی قرض ادا نہیں کرپا رہا تھا۔
ایس ای سی پی کا کیا کردار ہے؟؟
اس بارے میں ایس ای سی پی کے ترجمان ساجد گوندل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت مائیکرو فنانس کے لیے صرف 11 کمپنیوں کو لائسنس جاری کیا گیا ہے لیکن اس وقت بڑی تعداد میں غیرقانونی کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں جن کے بارے میں ہم نے اپنی ویب سائیٹ پر عوام کو آگاہ کررکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر قانونی کمپنیاں بغیر لائسنس کے کام کر رہی ہیں اور اس بارے میں ہم نے گوگل انتظامیہ کو بھی لکھا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض کمپنیاں فنانس کے بجائے سوشل ایپس کہہ کر انہیں لانچ کرتی ہیں اور گوگل کے سسٹم میں بھی انہیں ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایس ای سی پی نے ایسی 80 سے زائد کمپنیوں کی ایک فہرست بھی اپنی ویب سائیٹ پر دی ہے جس میں عوام کو بتایا گیا ہے کہ وہ ان سے لین دین نہ کریں۔
ساجد گوندل کا کہنا تھا کہ جو کمپنیاں ایس ای سی پی کے ساتھ لائسنس یافتہ ہیں وہ اپنے کسٹمرز کو جو بھی کال کرتے ہیں اس کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ یہ کمپنیاں اپنے کلائنٹس کو دھمکیاں دیں۔ جب سے یہ ایپس شروع ہوئیں ہیں، تب سے بڑی تعداد میں اس طرح کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ لائسنس یافتہ کمپنیوں کے بارے میں ایسی شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ان کا مکمل آڈٹ کیا جاتا ہے اور اس عمل کی نگرانی کی جاتی ہے۔ لیکن غیرقانونی ایپس چلانے والے لوگوں کے بارے میں ایسی شکایات موجود ہیں لیکن وہ ایس ای سی پی کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
ساجد گوندل کا کہنا تھا اس بارے میں عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف لائسنس یافتہ کمپنیوں کی سہولت کو ہی استعمال کریں۔
ایس ای سی پی کے مطابق اس وقت لائسنس یافتہ کمپنیوں سے یہ ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد 52 لاکھ سے زائد ہے جب کہ غیرقانونی ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہوسکتی ہے۔
صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنی دکھائی دیتی ہے
راول پنڈی کے سینئر کرائم رپورٹر اسرار راجپوت آن لائن لون ایپس کے موضوع پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صورت حال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جو نظر آ رہی ہے۔
اسرار راجپوت کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں ان کمپنیوں کا جال بچھا ہوا ہے اور ان کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کے سینکڑوں افراد مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ایک نوجوان کا بتایا کہ ایک شخص نے 43 ہزار روپے قرض لیا اور 6 لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد بھی قرض موجود ہے۔ یہ کس طرح اور کن شرائط پر سود اور مختلف اقسام کے چارجز لگاتے ہیں کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کمپنیوں کے زیادہ تر مالکان بیرون ملک میں ہیں اور اس کام کے لیے انہوں نے یہاں نوجوانوں کو بھرتی کررکھا ہے۔ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے یہ اپنے پاس قرض لینے والے کا مکمل ریکارڈ رکھتے ہیں اور ادائیگی میں تاخیر پر مختلف چارجز بھی لگاتے ہیں اور دھمکیاں الگ دیتے ہیں۔
اسرار راجپوت کا کہنا تھا کہ کئی کیسز میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کمپنیوں نے پولیس کی معاونت بھی حاصل کررکھی ہوتی ہے اور رقم کی ادائیگی میں تاخیر ہونے پر کئی افراد کو تھانوں سے بھی کالز موصول ہوئیں۔ جب کہ حقیقت میں ان کے خلاف تھانے میں کوئی درخواست نہیں ہوتی۔ کچھ پولیس اہلکار بھی ان کے پے رول پر ہیں۔ قرض لینے والوں کے گھروں کی خواتین کی تصاویر وائرل کرنے اور اغوا کرنے کی دھمکیاں دینا ان میں سے کئی کمپنیوں کا معمول بن چکا ہے۔
ان ایپس کے بارے میں آن لائن لون کمپنیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کئی کمپنیوں سے رابطہ ہونے کے باوجود اس بارے میں بات کرنے سے معذرت کر لی گئی۔