رسائی کے لنکس

ہم مشکل وقت میں پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، امریکی وزیر خارجہ


وزیر خارجہ بلنکن فائل فوٹو
وزیر خارجہ بلنکن فائل فوٹو

پاکستان کے ساتھ IMF اسٹینڈ بائی ایگریمینٹ کے تحت اس کو ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر ملنے کو امریکی وزیر خارجہ انٹنن بلنکن نے سراہا ہے۔

ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا ہم مشکل وقت میں پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان کی مدد کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم پاکستان پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ ملک میں میکرو اکنامک اصلاحات اور پائیدار معاشی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے، امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن کی ٹویٹ۔

ان رقوم کی آمد کے بعد پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں لگ بھگ دو ہفتوں میں چار ارب 20 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح عالمی ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی ریٹنگ پہلے سے بہتر کردی ہے جب کہ پاکستانی بانڈز کی قدر میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب عید کے بعد سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل تیزی کا رجحان ہے۔ اس کے علاوہ دو ہفتوں سے روپے کی قدر میں کسی حد تک بہتری دیکھی جا رہی ہے۔ جمعرات کو کاروبار کے اختتام پر انٹربینک میں ایک امریکی ڈالر ایک روپے دو پیسے کم ہوکر 276 روپے 46 پیسے کا ہو گیا۔

موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے وزیرِخزانہ اسحاق ڈار نے حالیہ اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح سات ماہ میں پہلی مرتبہ 29 فی صد تک آ گئی ہے۔ مئی کے مہینے میں یہ شرح لگ بھگ 38 فی صد تھی۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف، سعودی عرب اور امارات کی جانب سے آنے والی رقوم کے بعد کہا ہے کہ یہ پروگرام پاکستان کی معیشت کو ترقی کے "مثبت سفر" پر دوبارہ سے گامزن کرے گا اور ان فوائد کو مستحکم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔

'معیشت 22 فی صد شرح سود کے ساتھ نہیں چل سکتی'

البتہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں 23 بار جانے والی پاکستان کی معیشت ابھی صرف آئی سی یو سے باہر آئی ہے اور اسے لاحق خطرناک عارضے ختم نہیں ہوئے ہیں۔ یعنی پاکستان عارضی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے پیدا شدہ بحران سے تو نکل چکا ہے لیکن ابھی جشن منانے کے لیے بہت کم مواد ہے۔

سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور مبصر سید شبر زیدی کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی پالیسیوں کی تشکیل نو نہ کی گئی تو آنے والے برسوں میں ملک اس سے بھی سنگین معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے جو اس وقت لاحق ہے۔

انہوں نے بامعنی معاشی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معیشت 22 فی صد شرح سود کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ ان کے بقول ملک میں سات ہزار ارب روپے سے زائد رقم صرف بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کر رکھی ہے۔ اگرچہ تجارتی خسارے میں کسی حد تک کمی تو واقع ہوئی ہے لیکن ملک کی برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقم میں مجموعی طور پر گزشتہ سال آٹھ ارب 20 کروڑ ڈالر کی کمی آ چکی ہے۔

'حکومت کو اصلاحات لانا ہوں گی'

تجزیہ کار عثمان اہزاز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کسی بھی ملک کے مالی اور اقتصادی حالات کو بہتر نہیں کر سکتا بلکہ وہ صرف مشکل وقت میں درکار انتہائی ضروری مدد ہی فراہم کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت اس وقت تک جدوجہد ہی کے دور میں رہے گی جب تک حکومت خود ٹیکس نظام، توانائی، گورننس اور غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی اور باضابطہ بنانے میں سنجیدہ اصلاحات متعارف نہیں کراتی۔

انہوں نے کہا کہ ان اصلاحات کے نتائج حاصل کرنے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔

"فنڈ پروگرام کی بحالی سے مہنگائی کا بوجھ عوام پر پڑے گا"

ایک اور معاشی ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کے خیال میں اگرچہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے معاشی اشاریوں کو کسی حد تک بہتر بنانے میں مدد ضرور فراہم کرے گا لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس پروگرام پر عمل درآمد کے لیے جو راستہ چنا جائے گا وہ اصلاحات کے بجائے اس پروگرام کا بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کرنے کا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر پروگرام میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے نفاذ پر زور دیا گیا ہے جس کے لیے حکومت بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے نقصانات کو ختم کرنے کے بجائے اس کی قیمتیں بڑھا دیتی ہے تاکہ اس شعبے میں نقصان کا ازالہ کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح حکومت ٹیکس آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس نہ دینے والے شعبوں سے براہ راست ٹیکس وصول کرنے کے بجائے بالواسطہ ٹیکس میں اضافہ کیے جا رہی ہے۔ پیٹرولیم لیوی میں فی لیٹر مزید 5 روپے اضافہ کرکے 55 روپے کر دیا گیا ہے۔

ان ے بقول ملک میں صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانا زیادتی ہے اور اس سے پاکستانی معیشت کو استحکام نہیں مل سکتا۔

تاہم ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان کو ایک اور موقع ملا ہے کہ وہ اپنی معیشت کو سدھارے اور اس میں موجودہ بنیادی خامیوں کو دور کرے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG