یوکرین پر حملے کے بعد روس دنیا بھر میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے ۔ایسی ہی ایک کوشش دو دن بعد روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں ستائیس اور اٹھائیس جولائی کو ہونے والی ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس ہے، جس میں روس اور افریقہ کے 54 ملکوں کے سربراہ یا اہم سرکاری عہدےدار شریک ہونے والے ہیں۔
روس کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ پچاس سے زائد افریقی ملکوں کے نمائندوں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرے ، جو زرعی مصنوعات اور دفاع کے لئےماسکو پربےحد انحصار کرتے ہیں۔مبصرین کو توقع ہے کہ ان کانفرنس میں دو موضوعات پر بات لازمی ہوگی ، ایک افریقی ملکوں کو اناج کی فراہمی کیسے ہو اور افریقی ملکوں میں واگنر گروپ کا کردار کیا رہے گا۔
ایسی ہی ایک کوشش کے طور پر حال ہی میں کینیا کے دو بڑے اخبارات میں کینیا میں روس کے سفیر دمتری میکسی میشیف کا ایک مضمون شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے روس کی جانب سے یوکرین سے اناج کی منتقلی کے معاہدے کو ختم کرنے کا ذمہ دار امریکہ اور یورپی یونین کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے روسی اناج اور کھاد کو عالمی منڈیوں میں پہنچنے سے روکنے کے لیے ’’ہر حربہ استعمال کیا۔‘‘
واضح رہے کہ روس کے اناج برآمدگی کے بین الاقوامی معاہدے سے نکل جانے کا سب سے زیادہ اثر افریقی ملکوں پر پڑے گا، جن کی گندم اور اناج کی ضروریات پوری کرنے کا بڑا انحصار اس معاہدے پر ہے۔
سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والی کانفرنس روس افریقہ تعلقات کے لئے اہم کیوں؟
مبصرین کے مطابق ، کینیا میں روس کے سفیر کی جانب سے مضامین کا لکھا جانا افریقی ملکوں کی رائے عامہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش ہے کہ اگر ان کے ملکوں کی خوراک کی قلت پیدا ہوئی تو اس کی ذمہ داری روس پر عائد نہیں ہوگی۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کانفرنس میں کتنے افریقی ملکوں کے سربراہ شرکت کریں گے۔روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حکومت پر یہ دباو ہے کہ وہ ایک اعشاریہ تین ارب انسانوں کی آبادی والے براعظم افریقہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرے، کیونکہ یہ خطہ عالمی سطح پر ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا جا رہا ہے۔
افریقہ کے چون ممالک اقوام متحدہ میں ووٹنگ کا سب سے بڑا بلاک ہیں اور روس کے حملے کے بارے میں جنرل اسمبلی کی تنقیدی قراردادوں پر کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں زیادہ منقسم ہیں۔
امریکہ میں قائم سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے تجزیہ کار کیمرون ہڈسن کہتے ہیں کہ اگرافریقی ملکوں کو اس دو روزہ سربراہی اجلاس میں ان کی اہمیت کا احساس نہیں دلایا جاتا، تو وہ خود کو روس سے دور کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
پوٹن نے بارہا کہا ہے کہ روس کم آمدن والے افریقی ممالک کو مفت اناج کی پیشکش کرے گا کیونکہ اب اناج کا معاہدہ ختم ہو گیا ہے۔ پوٹن نے پیر کے روز ایک بیان میں یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کا ملک یوکرین کے اناج کی جگہ تجارتی اور بلا معاوضہ دونوں بنیادوں پر افریقی ملکوں کو اناج فراہم کر سکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس نے اس سال کے پہلے چھ ماہ میں تقریباً دس ملین ٹن اناج افریقی ملکوں کو بھیجا ہے ۔
واگنر گروپ کا افریقہ میں کیا کردار ہے؟
روس کا نجی جنگجو گروپ واگنر ، سوڈان، مالی اور دیگر افریقی ممالک کے لیےکانفرنس میں بات چیت کا ایک فوری معاملہ ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ملک سونے جیسے قدرتی وسائل کے بدلے واگنر کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ واگنر گروپ افریقہ میں اپنا کام جاری رکھے گا۔
افریقی ملکو ں میں صدر پوٹن کے لئے قبولیت کس درجے موجود ہے ؟
روس کے ایمبیسیڈر ایٹ لارج اولیگ اوزیروف نے کومرسنٹ اخبار کو بتایا کہ جہاں تک یوکرین میں امن سے متعلق افریقی ملکوں کے ایک پروپوزل کا تعلق ہے ، تو اس پر بھی سربراہی اجلاس میں 'تبادلہ خیال ہو سکتا ہے'۔لیکن افریقی ملکوں میں صدر پوٹن کے لئے قبولیت کس درجہ موجود ہے، یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔
پوٹن نے اپنے دو دہائیوں سے زائد کے دور اقتدار میں صرف ایک بار سب صحارا افریقہ کا دورہ کیا ہے۔گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ نے کافی سفارتی دباؤ کے بعد اعلان کیا ہے کہ پوٹن یوکرین جنگ کے حوالے سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کی وجہ سے اگست میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے ایک اقتصادی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
جنوبی افریقہ میں پوٹن کی گرفتاری کے بارے میں بحث ماسکو کے لیے ایک ملی جلی علامت تھی۔ لیکن جنوبی افریقہ کے صدرکے دفتر نے جمعے کے روز واضح کیا کہ افریقی رہنما ’’عدم استحکام لانے والی یوکرین روس جنگ کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ یہ براعظم افریقہ کےلئے اقتصادی طور پر اہم ہے۔
روس اور افریقہ کے 'ایک صفحے پر 'ہونےکے امکانات روشن کیوں؟
امریکہ کے حمایت یافتہ افریقہ سینٹر فار سٹریٹیجک سٹڈیز نے پیش گوئی کی ہے کہ روس، ایتھوپیا، کانگو، نائیجیریا اور سینیگال سمیت دیگر بااثر افریقی ممالک کو اپنے دائرہ اثر میں لانے کی کوشش کرے گا۔ سینٹر کے جوزف سیگل کہتے ہیں کہ افریقہ ’’دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں روس کے لیے سب سے زیادہ خیر مقدم کرنے والا خطہ ہے۔‘‘
مبصرین کے مطابق، چین کی طرح روس بھی افریقی ملکوں میں پائی جانے والی اس' ناگواری' کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا خواہش مند ہے، جو بڑی طاقتوں کی جانب سے دی جانے والی 'ڈکٹیشن' پر وہاں محسوس کی جاتی ہے۔
افریقہ میں اپنے اعلیٰ پروفائل کے باوجود روس اس خطے میں نسبتاً کم سرمایہ کاری کرتا ہے۔ پوٹن نے 2019میں روس افریقہ سمٹ میں پہلی بار براعظم افریقہ کے ساتھ روس کی تجارت کو پانچ سال کے اندر دوگنا کرنے کا عہد کیا تھا۔تاہم یہ تقریباً اٹھارہ بلین ڈالر سالانہ تک ہی محدود رہی۔
ماسکو افریقہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ پیش کرتا ہےجس میں فلاحی امداد شامل نہیں ہے۔
یوگنڈا کےایک تجزیہ کار اور مصنف ٹم کالیگیرا کہتے ہیں کہ روس افریقی ممالک کے ساتھ ان طریقوں سے رابطہ قائم کر سکتا ہے جو مغرب نہیں کر سکتا۔ ’’
ان کے بقول، روس ان چند یورپی ممالک میں سے ایک ہے جو ہم جنس پرستی کے بارے میں افریقہ جیسی سوچ رکھتے ہیں، یعنی ہم ایک روایتی مسیحی ملک ہیں۔ ہم جنس پرستی کے خلاف بل میں آپ کے ساتھ ہیں۔
یوگنڈا کو اس سال ایک نئے قانون کے لیے واشنگٹن کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس میں ہم جنس پرستی کے بڑھتے رجحان کے پیش نظر موت کی سزا تجویز کی گئی تھی۔
صدر جو بائیڈن نے اپنے دیرینہ حلیف یوگینڈا میں ’’جمہوریت کے فقدان‘‘ پراس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی ۔اب یوگنڈا کے صدر یوویری موسیوینی روس افریقہ سربراہی اجلاس میں ایک پینلسٹ کے طور پر شرکت کر رہے ہیں اور بات چیت کا موضوع ہوگا کہ " مغرب کی جانب سے دنیا کی اکثریت پر نو آبادیاتی نظام کی کون سی نئی اشکال " مسلط کی جا رہی ہیں ۔
روس افریقی ملکوں کو ہتھیار فراہم کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے اور یوگنڈا بھی الجزائر، مصر، مراکش، ایتھیوپیا، انگولا اور برکینا فاسو کے ساتھ ساتھ روس سے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے۔
یوگنڈا کےتجزیہ کار اور مصنف ٹم کالیگیرا کہتے ہیں کہ روس اب انفرادی سطح پر افریقی ممالک کے ساتھ اناج کی فراہمی کے سودے کرکے روس سے متعلق ان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
امریکہ کو افریقی ملکوں میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے پر کام کرنے کے مشورے کیوں؟
امریکہ نے بھی گزشتہ سال افریقی ملکوں کے لئے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کی تھی ۔ چین، فرانس، ترکی، جاپان اور برطانیہ بھی افریقی ملکوں کے ساتھ تعاون بڑھانے کی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہے ہیں ۔
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے جوزف سانی نے اس ماہ امریکی ایوان نمائندگان کی ایک ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکہ کو افریقی ملکوں میں مسابقت یا استحکام بڑھانے پر سرمایہ کاری یا انویسٹمنٹ کرنے کی فکر کیوں کرنی چاہئے۔
تو اس کا جواب واضح ہے کہ افریقہ اکیسویں صدی میں دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھنے والی آبادی اور اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرنے والا خطہ ہے۔انہوں نے کہا کہ 2050 تک بر اعظم افریقہ کے باشندے دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ بن جائیں گے۔
روس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنے والے افریقی ملکوں کے وفود پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ا سی نکتے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں۔
افریقی ملک ' کنگ میکرز' کا کردار ادا کرنا پسند کریں گے: تجزیہ کار
افریقہ میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار سیکیورٹی سٹڈیز کے کنسلٹنٹ رونق گوپال داس نے لکھا ہے کہ افریقی ملک کسی دوسرے کی پراکسی جنگ کا حصہ بننے کے بجائے 'کنگ میکرز 'کا کردار ادا کرنا پسند کریں گے۔گوپال داس کے بقول، 'اپنی طاقت کو زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا ہی افریقی ملکوں کے لئے ایک دانشمندانہ قدم ہو سکتا ہے'۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں )