نجی جنگجو گروپ واگنر کے فوجیوں نے بیلا روس کے فوجیوں کے ساتھ مل کر پولینڈ کی سرحد کے قریب واقع شہر بریسٹ کی ایک فائرنگ رینج سے اپنی جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بیلا روس کی وزارت دفاع کے مطابق یہ مشقیں ایک ہفتے تک جاری رہیں گی۔ ان جنگی مشقوں سے بیلاروس کے ہمسایہ ملکوں میں اپنے دفاع سے متعلق خدشات جنم لے ر ہے ہیں اور پولینڈ نے بیلا روس کے ساتھ سرحد پر اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ واگنر گروپ نے اپنے لیڈر پریگوزن کی قیادت میں گزشتہ ماہ روس میں فوجی بغاوت کی تھی، جس کے چوبیس گھنٹے بعد روس کے ہمسایہ ملک بیلاروس کی ثالثی میں بغاوت ختم کرنے کے لئے روس اور واگنر گروپ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت واگنر گروپ کے فوجیوں کو روس کے بجائے بیلاروس میں قیام کی اجازت ملی تھی۔ اس معاہدے کے تحت واگنر گروپ کو بیلا روس کا دفاع مضبوط بنانے میں مدد کرنی ہے۔
بدھ کو جاری کی گئی ایک ویڈیو میں واگنر گروپ کے سربراہ پریگوزن کو دیکھا جا سکتا ہے، جو گزشتہ ماہ کی بغاوت کی قیادت کے بعد پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں۔ اس ویڈیو میں انہیں اپنے فوجیوں سےیہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ افریقہ میں اپنے فوجیوں کی نئی تعیناتی سے قبل وہ کچھ وقت بیلا روس کی فوج کی تربیت پر صرف کریں گے۔
ایک روز قبل بیلا روس میں فوجیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے ایک سر گرم گروپ، بیلا روسکی ہاجون نے کہا تھا کہ واگنر گروپ کے 2 ہزار سے زیادہ فوجیوں کے 9 قافلے بیلاروس میں داخل ہو تے دیکھے گئے ہیں۔ جبکہ واگنر کے ایک کمانڈر نے اپنی کمپنی سے منسلک ایک میسجنگ ایپ پر ایک بیان پوسٹ کیا تھا جس میں کہا گیا کہ واگنر کے لگ بھگ 10 ہزار فوجی بیلا روس میں تعینات کیے جا رہے ہیں۔
بیلا روس کی حزب اختلاف کی لیڈر سویتلانا سیہانوسکایا (Sviatlana Tsikhanouskaya )نے کہا ہے کہ واگنر کے فوجیوں کی تعیناتی ان کے ملک کو عدم استحکام میں مبتلا کر دے گی اور اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ واضح رہے کہ سویتلانا سیہانوسکایا کو بیلاروس میں 2020 کے انتخابات میں سخت گیر صدر لوکا شینکو کو چیلنج کرنے کے بعد بیلا روس چھوڑنے پر مجبو ر کر دیا گیا تھا۔
ادھر بیلاروس کے ہمسایہ ملک پولینڈ کے وزیر دفاع نے ملک کے سرکاری ریڈیو پر واگنر کے ہزاروں فوجیوں کو بیلا روس میں منتقل کرنے پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پولینڈ بھی اپنے دفاع کے لئے چند فوجی یونٹس کو پولینڈ کی مشرقی سرحد کی طرف منتقل کر رہا ہے۔
واگنر گروپ کی بغاوت اور اسکے بعد ہونے والے سمجھوتے سے، جس کے تحت بغاوت کے لیڈر یووگنی پریگوزن کو بیلا روس میں پناہ لینے کی اجازت دی گئی تھی، بیلاروس کے دیگر ہمسایہ ملکوں ایسٹونیا، لیٹو یا، لتھوانیا میں بھی گہری تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
لتھوانیا کے صدر گیتا ناس نوسیدا نے کہا کہ اگر واگنر گروپ ان کی سرحدوں پر پیشہ ور قاتلوں کو متعین کرتا ہے، تو پڑوسی ملکوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔
واضح رہےکہ لیتھوانیا کا دارلحکومت ویلنئیس بیلا روس کی سرحد سے صرف پینتیس کلومیٹر دور ہے۔ یہاں چند روز قبل اکتیس رکنی نیٹو اتحاد کا سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ جس کا مقصد یہ جائزہ لینا بھی تھا کہ روس کی کسی ممکنہ جارحیت کا جواب دینے کے لئے طویل اور قلیل مدت میں نیٹو اتحاد کے پاس کتنی تعداد میں افواج اور کتنا سازو سامان ہونا چاہئیے۔اس اجلاس میں امریکہ کے صدر بائیڈن نے بھی شرکت کی تھی۔
لتھوانیا اپنی سرزمین پر نیٹو دستوں کی مستقل موجودگی کا خواہش مند ہے۔
روس اور واگنر گروپ کے تعلقات کا پس منظر
یاد رہے کہ روس میں گزشتہ ماہ کی تئیس تاریخ کو پریگوزن کی قیادت میں ہونے والی مختصر بغاوت سے قبل واگنر گروپ کے فوجی مشرقی یوکرین میں روسی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑ چکے ہیں۔ 2014 میں جب سے پریگوزن نے یہ نجی فوج تشکیل دی ہے اس کے فوجیوں کو شام اور متعدد دیگر افریقی ملکوں میں بھی تعینات کیا گیا تھا۔
برطانوی حکومت نے جمعرات کے روز واگنر گروپ کے 13 فوجیوں پر افریقہ میں مبینہ طور پر شہریوں پر حملوں اور انسانی حقوق کی دوسری خلاف ورزیوں کی بنا پر اثاثے منجمد کرنے کے علاوہ سفری پابندیاں عائد کی ہیں ۔
23 جون کو شروع ہوکر اگلے دن ختم ہونےوالی بغاوت کے دوران پریگوزن کے کرائے کے فوجیوں نے روس کے جنوبی شہر روسٹوف آن ڈان میں فوجی ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر ماسکو کے اندر 200 کلومیٹر تک داخل ہو گئے۔
واگنر کے سربراہ نے اس بغاوت کو روس کے اعلیٰ ترین فوجی راہنماؤں کی معزولی کے لئے انصاف کا مارچ قرار دیا تھا ۔ واگنر کے فوجیوں کو ماسکو کی طرف پیش قدمی کے دوران معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ا نہوں نے کم از کم چھ فوجی ہیلی کاپٹر اور ایک کمانڈ پوسٹ ائیر کرافٹ کو مار گرایا تھا اور کم از کم چھ فضائی کارکن ہلاک کر دیے تھے۔
مبصرین نےاس بغاوت کو روسی صدر ولادی میر پوٹن کی 23سالہ حکمرانی کے لئے انتہائی سنگین خطرہ قرار دیا تھا، اس سے ان کی حکومت کی کمزوری نمایاں ہوئی تھی۔
بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کی ثالثی میں ہونےوالے ایک معاہدے کے تحت پریگوزن نے اپنے فوجیوں کو بغاوت کے چوبیس گھنٹوں کے اندر واپس ان کے کیمپوں میں جانے کا حکم دیا تھا۔ معاہدے کے تحت بغاوت کے خاتمے کے بدلے پریگوزن اور اس کے جنگجووں کو عام معافی اور بیلا روس منتقل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)