سعودی عرب، جو فٹ بال کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کا نیا مرکز، اور پروفیشنل گولف کا ایک شریک مالک ہے اب 180 ارب ڈالر سالانہ کی گیم انڈسٹری کا حتمی عالمی مرکز بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ سال اس نے ایک نئے گیم گروپ کے لیے لگ بھگ 40 ارب ڈالر کے فنڈز مختص کئے تاکہ 2030 تک سلطنت کو گیمز اور اسپورٹس میں ایک حتمی عالمی مرکز میں تبدیل کیا جا سکے۔فروری میں وہ ننٹینڈو کے لئے سب سے بڑا غیرملکی سرمایہ کار بن گیا اور رواں ماہ سلطنت نے ریکارڈ 45 ملین ڈالر کے انعامی پول کے ساتھ ایک بڑے گیمنگ ٹورنامنٹ کی میزبانی کی۔
ان اقدامات نے اس انڈسٹری میں سعودی عرب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے اور تیل کی حامل اور کٹر اسلام پسند سلطنت کے طور پر اس کے تاثرکو تبدیل کرنے میں بھی ایک کردار ادا کیا ہے ۔اب وہ کھیل اور تفریحی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آرہا ہے ۔
تاہم گیمنگ انڈسٹری میں اس کے اقدامات پر اسی قسم کی تنقید دیکھنے میں آرہی ہے جیسی کہ فٹ بال اور گولف کے شعبے میں سامنے آئی تھی ۔
نقادوں نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ وہ کھیلوں کی آڑ میں انسانی حقوق کی اپنی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ان میں 2018 میں سعودی عرب کے ایک نقاد اور واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار جمال خشوگی کا قتل بھی شامل ہے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق گیمنگ انڈسٹری میں قدم جماکر یہ سلطنت جو صرف چند ٹویٹس پر لوگوں کو عشروں تک جیل کی سزا دیتی ہے ، اب دنیا کی ایسی کمیونٹی میں شامل ہو رہی ہے کہ جہاں نوجوانوں کا غلبہ ہے اور جو زیادہ تر آن لائن رہتی ہے۔
گیمنگ انڈسٹری پر اتنی توجہ کیوں ؟
نیو یارک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر یوسٹ وین ڈریونن ، جو ویڈیو گیمز کے کاروبار پر ایک کتاب لکھ چکے ہیں ،کہتے ہیں ، لگتا ہے کہ رومی دور کے کھیلوں کے اسٹیڈیم دوبارہ وجود میں آرہے ہیں۔ دنیا کے کچھ امیر ترین ملک اپنی دولت اور طاقت کے اظہار کے لئے کھیلوں کو ایک تھیٹر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔
سعودی عرب کے 37 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو اطلاعات کے مطابق خود بھی ایک گیمر ہیں ، گیمنگ کو اپنے ویژن 2030 کاایک اہم حصہ سمجھتے ہیں ، جو ملکی معیشت کی بہتری ، تیل پر انحصار میں کمی اور اپنی نوجوان آبادی کو روزگار اور تفریح کی فراہمی کا ان کا ایک پر عزم منصوبہ ہے۔
گزشتہ ستمبر میں جب انہوں نے کھیلوں اور ای سپورٹس پر عوامی سرمایہ کاری کے ادارے , ساوی گیم گروپ، کے قیام کا اعلان کیا تو کہا تھا،” ہم اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے اسپورٹس اور گیمز کے شعبے میں غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔‘‘
یہ ادارہ گیمنگ انڈسٹری میں لگ بھگ 39 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اس امید کے ساتھ کرے گا کہ وہ اگلےسات برسوں میں250 مقامی کمپنیاں قائم کرے گا اور 39 ہزار روزگار پیدا کرے گا ۔
گیمنگ انڈسٹری کا مستقبل ؟
گیمنگ ایک بہت بڑی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی انڈسٹری ہے۔ مارکیٹ ریسرچ فرم ، نیوزو کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 3.2 ارب لوگ پرسنل کمپیوٹرز ، کنسولز،موبائیل ڈیوائسز یا کلاؤڈ گیمنگ سروسز پر گیمز کھیلتے ہیں اوراس صنعت نے 2022 میں 184 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کےریونیوز پیدا کیے تھے۔
بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق گیمنگ سے پیدا ہونے والے ریونیوز، عالمی باکس آفس، میوزک اسٹریمنگ اور البمز کی فروخت اور پانچ دولتمند ترین اسپورٹس لیگز کے مشترکہ ریونیوز سے زیادہ ہوتے ہیں ۔
ای سپورٹس ٹورنامنٹس، ایک بڑا کاروبار
سعودی عرب الیکٹرانک اسپورٹس یا ای سپورٹس میں بھی داخل ہو رہاہے۔ ویڈیو گیمز کے ذریعے مقابلوں کی ایک قسم ای۔سپورٹس میں ویڈیو گیمز کے منظم مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔
یہ خاص طور پر کئی پروفیشنل کھلاڑیوں ، افراد یاٹیموں کے درمیان ہوتے ہیں ۔ اگرچہ دوسرے لوگوں کو ویڈیو گیمز کھیلتے دیکھنا بظاہر کوئی اتنا دلچسپ مشغلہ دکھائی نہیں دیتا لیکن یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہے جس میں لاکھوں پرستار ، مشہور کھلاڑی اور اسپانسر کمپنیاں شامل ہیں ۔
2021 میں سنگا پور کے ایک ای سپورٹس ٹورنامنٹ میں 5اعشاریہ 4 ملین لوگوں نے لائیو دیکھا تھا۔
برسلز میں قائم ایک تھنک ٹینک کے یورپین سنٹر فار انٹر نیشنل افئیرز میں خلیجی امور کے ایک ماہر ،کرسٹوفر ڈیوڈسن کہتے ہیں کہ ای سپورٹس دوسری سپورٹس کی نسبت کہیں زیادہ نیا اور زیادہ بڑاعالمی کھیل ہیں ۔
دوسرے خلیجی ملکوں کی گیمنگ انڈسٹری میں شمولیت
سعودی عرب کے دولتمند خلیجی پڑوسی بھی اس انڈسٹری میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ملک ، دوبئی نے گزشتہ ماہ پانچ روزہ ای سپورٹس تہوار کی میزبانی کی تھی ۔
قطر کی سرمایہ کار اتھارٹی نے بھی حال ہی میں مونیومنٹ اسپورٹس اینڈ اینٹرٹینمنٹ کمپنی کا کچھ حصہ خریدا ہے ۔
کرسٹوفر ڈیوڈسن نےسعودی عرب اور خلیجی ملکوں کی ای سپورٹس میں دلچسپی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ ای سپورٹس پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو آپ کو پرائم اشتہارات ملنے کے مواقع ملتے ہیں اور آپ اپنے ملک کی ایک پر کشش مقام کے طور پرتشہیر کرتے ہیں جہاں لوگ تعطیلات منانے کے لئے آنے کا سوچیں ۔
لیکن مطلق العنان خلیجی ریاستوں کی اس انڈسٹری میں بڑھتی ہوئی شمولیت نے خود گیمنگ کمیونٹی کے اندر بحث کو جنم دے دیا ہے ۔
وہ ان ملکوں میں انسانی حقوق کے مسائل کے پیش نظر گیمنگ کی ان کی سر گرمیوں میں شرکت سے احتراز پر غور کرنے لگی ہے ۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے ۔
سپورٹس کی اخلاقیات کے فروغ کے ایک بین الاقوامی ادارے ، پلے دی گیم کے ایک سینئیر تجزیہ کا اسٹینس ایلبور، جو ای سپورٹس اور گلف کے ملکوں کے عزائم کے تعلق پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں ، کہتے ہیں ،”پیسہ بولتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ اب ویسے ہی حالات دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں جیسے کہ دوسرے کھیلوں میں دیکھے گئے ہیں جب مطلق العنان حکومتوں کی زیر ملکیت کمپنیوں کے ساتھ اہم شراکت داریاں قائم کی گئیں ۔”
آپ کونسی گیم کھیلتے ہیں ؟ اور سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کی کی گیمنگ انڈسٹری میں اتنی دلچسپی پر آپ کیا کہتے ہیں ؟ کمنٹ باکس میں ضرور لکھئے گا۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)