رسائی کے لنکس

'ڈیجیٹل ایڈیکشن' کیا ہے اور یہ نوجوانوں پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟


پولیس کے مطابق ڈیجیٹل ایڈیکشن  میں مبتلا طبقے میں بڑی تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں یعنی ٹین ایجرز کی ہے۔
پولیس کے مطابق ڈیجیٹل ایڈیکشن  میں مبتلا طبقے میں بڑی تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں یعنی ٹین ایجرز کی ہے۔

معاشرے میں منشیات کے علاوہ ایک اور نشہ یا لت جو جرائم کی وجہ بننے لگی ہے بعض ماہرین کے مطابق وہ 'ڈیجیٹل ایڈیکشن' ہے۔پولیس کی تحقیقات میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے دور کی یہ لت لگ بھگ دو سال کے عرصے میں متعدد افراد کی زندگی لے چکی ہے۔

اویس منیر بھلر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چھٹے سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔ وہ خود انٹرنیٹ پر 'پب جی' اور دیگر ویڈیو اور ڈیجیٹل گیمز کھیلتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان گیمز کو کھیلنے والا دماغی طور پر اس میں اتنا ملوث ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے آس پاس کا ہوش ہی نہیں رہتا۔

وائس آف امریکہ سے بات ہوئے اویس منیر بھلر نے بتایا کہ پب جی سمیت دیگر آن لائن گیمز کے گرافکس اچھے اور پرکشش ہیں۔اس کو کھیلنے والے کو سب کچھ حقیقی لگتا ہے۔ خاص طور پر گن کلچر ہر نوجوان کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔

البتہ پولیس پب جی سمیت دیگر آن لائن گیمز کو 'ڈیجیٹل ایڈیکشن' کا نام دیتی ہے جو پولیس حکام کے مطابق نوجوانوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔

اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟

پنجاب پولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں جن میں ڈیجیٹل لت کا شکار افراد نے نفسیاتی طور پر متاثر ہوکر خود کشی کی ہو یا اپنے کسی قریبی فرد کی جان لے لی۔

سال 2020 میں لاہور کے علاقے شمالی چھاؤنی میں جیونٹی جوزف نامی 17 سالہ نوجوان نے خودکشی کی تھی۔

ورثا اور پولیس کے مطابق متوفی آن لائن گیم پب جی کا عادی تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کیس کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ جیونٹی جوزف کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا۔ اس کے والدین نے اسے گیم کھیلنے سے منع کیا البتہ ایک دن جیونٹی کی لاش اس کمرے سے ملی۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق اسی طرح ملتان روڈ سے ملحقہ آبادی منصورہ کا رہائشی زکریا بھی آن لائن گیم ضرورت سے زیادہ کھیلتا تھا۔ گیم کے ایک خاص لیول پر آکر اس نے بھی خود کشی کرلی۔

حکام کے مطابق پولیس کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ لاہور میں آن لائن گیمز کے عادی سات افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کر چکے ہیں جب کہ سات افراد کا قتل ہوا ہے جنہیں ان کے اپنے ہی گھر کے فرد نے قتل کیا تھا۔

والدہ، بہنوں اور بھائی کا قتل

کاہنہ میں رواں سال کے آغاز میں زین نامی نوجوان نے اپنی والدہ، دو بہنوں اور بڑے بھائی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

پولیس کے مطابق زین بھی پب جی گیم کا شوقین تھا۔

پولیس کو دیے گئے بیان میں زین نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے گیم کا ری پلے کیا ہے۔ اس کو امید تھی کہ گیم کے کرداروں کی طرح مارے جانے والے سب افراد دوبارہ زندہ ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر متنازع کمنٹس پر ہونے والا ایک جھگڑا فائرنگ اور تین افراد کی جان جانے کے بعد ختم ہوا۔

گیم کھیلنے والے کو تشدد پر کیسے اکساتی ہے؟

پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اویس منیر بھلر کہتے ہیں کہ یہ گیم کھیلتے ہوئے بندوقوں کے نام کے ساتھ ساتھ یہ ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ اس اسلحے سے کتنے فائر کیے جا سکتے ہیں جو کہ نوجوان نسل کے لیے ایک خاص کشش ہے اور یہ ایک خاص قسم کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان جیسے دیگر کھلاڑی گیم میں ٹی ڈی ایم موڈ زیادہ کھیلتے ہیں،جس میں ایک کھلاڑی کو 40 افراد کو مارنا ہوتا ہے جو کھلاڑی یہ 40 افراد پہلے مار لیتا ہے وہ جیت جاتا ہے اور اس سب کے لیے ایم-416 گن استعمال کی جاتی ہے۔

اویس کے مطابق یہ گیم کھیلتے ہوئے اسے کھیلنے والا ذہنی طور پر اتنا جنونی ہوجاتا ہے کہ اسے کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا اور وہ تھکتا نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اور اُن کے کچھ ساتھی بغیر کسی وقفے کے یہ گیم 10 سے 12 گھنٹے کھیل سکتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر طلبہ شام چار سے رات 11 بجے تک یہ گیم کھیلتے ہیں۔

'گیمنگ ڈس آرڈر' کی اصطلاح

خیال رہے صحت کی عالمی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کثرت سے ڈیجیٹل گیمز کے استعمال کو ذہنی امراض کی ایک وجہ قرار دے چکی ہے۔

ڈبلیوایچ او نے اس کے لیے 'گیمنگ ڈس آرڈر' کی اصطلاح استعمال کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گیمنگ ڈس آرڈر انسان کے رویے پر اثر انداز ہوتی ہے جو کہ مختلف ذہنی بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے۔

نوجوان کیا کہتے ہیں؟

مخلتف آن لائن گیم کھیلنے والے طلبہ کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں پیدا ہونا ان کا قصور نہیں ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ موبائل فون اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کے ساتھ روز مرہ کے امور نمٹائے جائیں۔

البتہ طلبہ کی ایک مشترکہ رائے یہ بھی ہے کہ موبائل فون اور دیگر انٹرنیٹ ڈیوائسز کے استعمال سے ان کے رویے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جیسے اپنے والدین یا گھر کے دیگر افراد سے رابطے کا فقدان ، چڑچڑا پن اور نیند کی کمی کے مسائل۔

ماہر نفسیات کی رائے

ماہرین نفسیات ان وجوہات میں سے نیند کی کمی اور خیالی دنیا کو نفسیاتی مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں جو آگے جا کر مجرمانہ رویے میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ رُباب ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ آن لائن گیمز سے متعلق معاشرے میں اشتعال پسندی بڑھ جانے کے واقعات زیادہ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

ان کے بقول سات سال سے 50 سال تک کے افراد میں یہ شرح زیادہ دیکھنے میں آئی ہے اور اس میں خواتین بھی شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ تشدد پر مبنی ویڈیو گیم کھیلنے والا جو بھی مناظر دیکھتا ہے اسے ذہن میں سوچتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتا ہےاور وہ تشدد کرنے پر مائل ہوتا ہے۔

لاہور کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور ڈیجیٹل ایڈیکشن کی وجہ سے قتل، اقدامِ قتل اور لڑائی جھگڑوں کا رپورٹ ہونا معمول قرار دیتے ہیں۔

ان کے بقول ایسے کیسز میں دفعہ 324 کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔

عمران کشور کے مطابق پب جی اور دیگر گیمز کھیلنے والے افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور اس کا اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ ان کے بقول''ڈیجیٹل نشہ منشیات کے نشے سے کم خطرناک نہیں ہے۔''

کیا گیم پر پابندی حل ہے؟

ایس ایس پی انویسٹی گیشن پولیس کی جانب سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو لکھے گئے مراسلوں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ان مراسلوں میں آن لائن گیم پب جی کی بندش کی سفارش کی ہے۔

پولیس کے مطابق یہ پابندی یا اس کی کوشش صرف پولیس کی ذمہ داری نہیں لیکن بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر انویسٹی گیشن پولیس اس کوشش کو معاشرتی فریضہ سمجھتی ہے۔

اس بارے میں ڈاکٹر طاہرہ رباب کہتی ہیں کہ پابندیاں مسئلے کا حل نہیں، البتہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور اس کے لیے ہونے والی کاوشیں رویوں میں تبدیلی کی وجہ بن سکتی ہیں جس کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر اِس گیم پر پابندی لگا دی جائے تو اِس کو کھیلنے والے پراکسی کے ذریعے اِس کا توڑ نکال لیں گے۔

ڈاکٹر طاہرہ رباب کے مطابق پب جی یا اس جیسی دوسری گیم میں تشدد والے مناظر یا حصوں پر پابندی لگنی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ان کے پاس دو لڑکیاں آئیں جنہیں پب جی کھیلنے کے بعد اغوا کیا گیا تھا۔

پب جی ٹورنامنٹ

پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اویس منیر بھلر کے مطابق پاکستان میں پب جی گیم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اِس کا الگ سرور بنا دیا ہے اور اِس کے ٹورنامنٹ بھی کرائے جاتے ہیں، جس میں جیتنے والوں کو نقد انعام دیا جاتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پب جی گیم کی کمپنی براہِ راست پاکستان کی مختلف سرکاری اور نجی جامعات کے ساتھ رابطہ کرکے ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتی ہے۔

اویس منیر کے اِس دعوٰی کی تصدیق ڈاکٹر رباب نے بھی کی ہے۔ اُن کے بقول جب انہوں نے اپنے ایسے مریضوں کا علاج کیا تو دوران علاج یہ بات سامنے آئی کہ پب جی زیادہ تر نجی شعبے میں قائم جامعات میں براہِ راست ٹورنامنٹ کا انعقاد کرتی ہے۔

پولیس کے مطابق ڈیجیٹل ایڈیکشن میں مبتلا طبقے میں بڑی تعداد 18 سال سے کم عمر افراد یعنی ٹین ایجرز کی ہے۔ تاہم یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ بڑے عمر کے افراد میں بھی ہر وقت موبائل یا انٹرنیٹ ڈیوائسز کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق آن لائن گیمنگ پر رابطے حد سے زیادہ بڑھنے کی وجہ سے کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کے گھر چھوڑکر جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG