امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر آفس کی حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے یوکرین جنگ جاری رکھنے میں چین کی حمایت اہم رہی ہے۔
کانگریس کی درخواست پر جاری کی گئی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ روس کے یوکرین پر بلا اشتعال حملے کے تقریباً 18 ماہ بعد چینی حکومت، چینی کمیونسٹ پارٹی، سرکاری چینی کمپنیاں اور دیگر چینی ادارے کس طرح روس کی معیشت اور اس کی فوج کی مدد کر رہے ہیں۔
یہ رپورٹ ایوان نمائندگان کی مستقل سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بیجنگ روس کے لیے مختلف قسم کے اقتصادی تعاون کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے جو مغربی پابندیوں اور برآمدی کنٹرول دونوں کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چین نے روس سے توانائی کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے جس میں تیل اور گیس کی وہ سپلائی بھی شامل ہے جس کا روس نے یورپ سے چین کی جانب رخ موڑا ہے۔اس کے علاوہ چین نے روسی اداروں کو مغربی پابندیوں سے آزاد رہتے ہوئے اپنی کرنسی یوان میں لین دین کرنے کی اجازت دی ہے۔
چین ماسکو کو ٹیکنالوجی اور 'دہری استعمال' کے آلات، یعنی ایسی اشیاء جن کا شہری اور فوجی دونوں طرح سے استعمال ہو سکتا ہے، بیچ کر روس کی جنگی کوششوں کی براہِ راست حمایت کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ مغرب کی کوشش رہی ہے کہ جنگ کے دوران روس کو فوجی گاڑیوں اور ہتھیاروں کے نظام سمیت بہت سے جدید آلات کے لیے درکار سیمی کنڈکٹرز کی قابلِ اعتماد فراہمی منقطع کی جائے۔
لیکن رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہانگ کانگ میں نئے بننے والے کاروباروں کے ایک نیٹ ورک کو جسے،"شیل کمپنیاں" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کھلی منڈی سے روس کے لیے سیمی کنڈکٹرز کی خریداری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ کمپنیاں امریکی برآمدی کنٹرول کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیمی کنڈکٹرز کو روس کو دوبارہ فروخت کرتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین روس کو دہری استعمال کا سامان اور کچھ واضح طور پر فوجی مواد بھی فراہم کر رہا ہے جب کہ رپورٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے ہونے والے تجارتی نقصان کی جگہ چین کے ساتھ تجارت نے لے لی ہے ۔
سال 2022 میں روس اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت ریکارڈ بلند سطح پر پہنچی تھی۔چین سے روسی درآمدات میں 14 فی صد اضافہ ہوا جب کہ چین کو برآمدات میں 43 فی صد اضافہ ہوا۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے جمعے کو اس رپورٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے ماسکو پر مغربی پابندیوں کی مذمت کی اور کہا کہ روس کے ساتھ بیجنگ کی تجارت میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
ترجمان نے کہا کہ چین روس اور دیگر ممالک کے ساتھ برابری اور باہمی فائدے کی بنیاد پر معمول کے مطابق اقتصادی اور تجارتی تعاون میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیجنگ یکطرفہ پابندیوں اور اس کے نفاذ میں طویل دائرۂ اختیار کی مخالفت کرتا ہے جن کی بین الاقوامی قانون یا سلامتی کونسل کے مینڈیٹ میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔