رسائی کے لنکس

 افغانستان : امریکی حملے میں ملبے سے ملنے والی بچی کی تحویل، معاملہ کیا ہے ؟


افغان بچی کی تحویل کے مقدمے کے دوران ایک سرکٹ عدالت میں جوشوا اور اس کی اہلیہ اسٹیفنی کا ایک خاکہ، فائل فوٹو
افغان بچی کی تحویل کے مقدمے کے دوران ایک سرکٹ عدالت میں جوشوا اور اس کی اہلیہ اسٹیفنی کا ایک خاکہ، فائل فوٹو

افغانستان میں 2019 میں ایک دور افتادہ گاؤں پرکئےگئےایک امریکی حملے میں ملبے سے ملنے والی ایک بچی کی تحویل کے ایک مقدمےسے یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس حملے میں کون مارا گیا تھا اور کیوں؟

اس مقدمے نےپانچ ستمبر 2019 کے امریکی حملے کو اس تنازعے میں بدل دیا ہے کہ فوج نے افغانستان میں نصف شب جن دیواروں کو دھماکے سے اڑایا تھا اس میں انہوں نے کس کو ہلاک کیا تھا ؟ آیا وہ جنگجو تھے یا عام شہری،اور آیا فوج نے اس کے بعد کبھی اس بارے میں پتہ چلانے کی کوشش بھی کی ؟

اس رات اصل میں کیا ہوا تھا؟ یہ واقعہ اس لئے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے کہ ملبے سے ملنے والی یتیم بچی کی ، جو اس وقت امریکہ میں ہے، بین الاقوامی تحویل پر ایک افغان خاندان اور ایک امریکی خاندان کے درمیان ایک قانونی جنگ جاری ہے ۔ اور وائٹ ہاؤس اور طالبان دونوں نے اس پر رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

افغانستان میں 5 ستمبر 2019 کے حملے میں تباہ ہونے والےاس گھر کے صحن میں ایک یتیم بچہ کھڑا ہے جس کے والدین اور پانچ بہن بھائی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے،فوٹو اے پی 24 فروری 2023
افغانستان میں 5 ستمبر 2019 کے حملے میں تباہ ہونے والےاس گھر کے صحن میں ایک یتیم بچہ کھڑا ہے جس کے والدین اور پانچ بہن بھائی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے،فوٹو اے پی 24 فروری 2023

امریکی میرین میجر جوشوا ماسٹ نے اس بچی کو گود لیا ہے، اور اس کا اصرار ہے کہ بچی کے والدین افغان شہری نہیں بلکہ حملے میں مارے گئے غیر ملکی تھے جو القاعدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں موجود تھے۔

جب ایسو سی ایٹڈ پریس نے متعلقہ گاؤں میں جا کر مقامی لوگوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس حملے میں 20 مسلح غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ ایک کسان ، اس کی بیوی اور پانچ بچے بھی مارے گئے تھے، جب کہ اس کی ایک نوزائیدہ بچی لاپتہ ہو گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ اس کسان کے چار بچے زندہ بچ گئے تھے جس میں اس بچی کی بہن بھی شامل تھی جو ابھی انیس سال سے کم عمر ہے ۔اس افغان لڑکی نے اے پی کو بتایا کہ جب فوجیوں نے حملہ کیا تھا تو چالیس دن کی اس کی شیر خوار بہن جسے اٹھا کر وہ پناہ کے لیےبھاگ رہی تھی، تیز ہوا کے باعث اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر گئی تھی جسے اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا ۔

پانچ ستمبر 2019 کو افغانستان کے ایک گاؤں پر ایک امریکی حملے سےتباہ شدہ ایک گھر ، فوٹو اے پی، 24 افروری2023
پانچ ستمبر 2019 کو افغانستان کے ایک گاؤں پر ایک امریکی حملے سےتباہ شدہ ایک گھر ، فوٹو اے پی، 24 افروری2023

حملے کے بعد کسان کے رشتے داروں نے اس کے زندہ بچ جانے والے بچوں کو تلاش کر لیا اور انہیں اپنی نگرانی میں لے لیا ۔لیکن انہیں بہت تلاش کے بعد بھی وہ بچی نہیں ملی۔ کچھ عرصے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بچی زخمی ہو گئی تھی اور وہ ایک فوجی ہسپتال میں ہے۔ جہاں جوشوا اس کا علاج کرا رہے تھے اور وہ اسے گود لے کر امریکہ لانا چاہتے تھے۔

حکومت اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے اس بچی کے اصل وارثوں کا پتہ چلانے کے لئے چھان بین کی, اس کے زندہ بچ جانے والے رشتے داروں کو اکٹھا کیا اور اس بچی کو اس کے رشتہ داروں سے ملوا دیا گیا ۔ بعد میں بچی کو اس کے ایک رشتے دار جوڑے کے سپرد کر دیا گیا ۔

پانچ ستمبر 2019 کو افغانستان کے ایک دور افتادہ گاؤں پر امریکی حملے سے تباہ ہونے والے ایک گھر کے سامنے بچے کھڑے ہیں، فوٹو اے پی،24 فروری 2023
پانچ ستمبر 2019 کو افغانستان کے ایک دور افتادہ گاؤں پر امریکی حملے سے تباہ ہونے والے ایک گھر کے سامنے بچے کھڑے ہیں، فوٹو اے پی،24 فروری 2023

لیکن جوشوا ہر صورت بچی کو امریکہ لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکہ آکر ورجینیا کی ایک عدالت سے بچی کو گود لینے کی اجازت حاصل کر لی ۔ اور دو سال سے بھی کم عرصے میں افغانستان سے امریکی فوجیو ں کے انخلا کے دوران انہوں نے اس بچی اور اس کے نگران جوڑے کو امریکہ لانے میں کامیاب ہو گئے۔

نگران جوڑے اور بچی کے امریکہ پہنچنے کے کچھ ہی دن بعدجوشوا نے پناہ گزینوں کے اس کیمپ سے رابطہ کیا جہاں انہیں رکھا گیا تھا اور وہاں کے متعلقہ وفاقی ملازموں کے تعاون سے اس بچی کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔

افغان جوڑا اس بچی کو واپس لینے کے لئے عدالتی کارروائی کر رہا ہے لیکن یہ معاملہ ابھی تک التوا کا شکار ہے ۔

ایک آرٹسٹ کا بنایا ہوا خاکہ جس میں امریکی میرین میجر جوشوا اور ان کی اہلیہ اسٹیفنی کو ایک سرکٹ کورٹ میں افغان بچی کی تحویل کے مقدمے کی سماعت کے دوران دکھایا گیا ہے ، فوٹو اے پی، 30 مارچ 2023
ایک آرٹسٹ کا بنایا ہوا خاکہ جس میں امریکی میرین میجر جوشوا اور ان کی اہلیہ اسٹیفنی کو ایک سرکٹ کورٹ میں افغان بچی کی تحویل کے مقدمے کی سماعت کے دوران دکھایا گیا ہے ، فوٹو اے پی، 30 مارچ 2023

افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بچی افغانستان کی ہے اور امریکہ کی فیڈرل حکومت کےوکلا نے عدالتی کاغذات میں لکھا ہے کہ ، امریکی حکومت نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ عدالتی ریکارڈ میں “Baby Doe,” کے طور پر درج وہ بچی ایک افغان شہری ہے اور اس کے خونی رشتے دار افغانستان میں ہیں، لیکن جوشوا خاندان اس سے سخت اختلاف کرتا ہے ۔

محکمہ دفاع کے ایک عہدے دار نے اے پی کو بتایا ہے کہ جوشوا نے عدالت میں جو سمری داخل کروائی ہے وہ اس نے 2019 میں افغان بچی کو گود لینے کی قانونی کارروائی میں استعمال کے لئے تیار کی تھی لیکن وہ لازمی طور پر درست یا مکمل معلومات نہیں ہے ۔

جوشوا اور ان کی اہلیہ اسٹیفنی بچی کی تحویل کے مقدمے کے لیے سرکٹ کورٹ پہنچ رہے ہیں ،، فوٹو 30 مارچ 2023
جوشوا اور ان کی اہلیہ اسٹیفنی بچی کی تحویل کے مقدمے کے لیے سرکٹ کورٹ پہنچ رہے ہیں ،، فوٹو 30 مارچ 2023

اے پی نے جب فوج سے اس حملے کےبارے میں تبصرے کی درخواست کی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح بند دروازوں کے پیچھے عدالتی سماعت میں گواہی دینے والے کئی فوجیوں نے بھی کسی تبصرے سے انکار کر دیا ۔ اور ان کی گواہی کو سیل کر دیا گیا ہے ۔

اس بچی کی تحویل کا مسئلہ کب حل ہو گا اور یہ مسئلہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ماضی کے حملوں سے متعلق مزید کن سوالات کو جنم دے گا؟ اس کا انحصار اس مقدمے کے فیصلے پر ہو گا۔ یہ فیصلہ کب ہو گا اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیاہے۔)

فورم

XS
SM
MD
LG