افغانستان میں 2019 میں ایک دور افتادہ گاؤں پرکئےگئےایک امریکی حملے میں ملبے سے ملنے والی ایک بچی کی تحویل کے ایک مقدمےسے یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس حملے میں کون مارا گیا تھا اور کیوں؟
اس مقدمے نےپانچ ستمبر 2019 کے امریکی حملے کو اس تنازعے میں بدل دیا ہے کہ فوج نے افغانستان میں نصف شب جن دیواروں کو دھماکے سے اڑایا تھا اس میں انہوں نے کس کو ہلاک کیا تھا ؟ آیا وہ جنگجو تھے یا عام شہری،اور آیا فوج نے اس کے بعد کبھی اس بارے میں پتہ چلانے کی کوشش بھی کی ؟
اس رات اصل میں کیا ہوا تھا؟ یہ واقعہ اس لئے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے کہ ملبے سے ملنے والی یتیم بچی کی ، جو اس وقت امریکہ میں ہے، بین الاقوامی تحویل پر ایک افغان خاندان اور ایک امریکی خاندان کے درمیان ایک قانونی جنگ جاری ہے ۔ اور وائٹ ہاؤس اور طالبان دونوں نے اس پر رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
امریکی میرین میجر جوشوا ماسٹ نے اس بچی کو گود لیا ہے، اور اس کا اصرار ہے کہ بچی کے والدین افغان شہری نہیں بلکہ حملے میں مارے گئے غیر ملکی تھے جو القاعدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں موجود تھے۔
جب ایسو سی ایٹڈ پریس نے متعلقہ گاؤں میں جا کر مقامی لوگوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس حملے میں 20 مسلح غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ ایک کسان ، اس کی بیوی اور پانچ بچے بھی مارے گئے تھے، جب کہ اس کی ایک نوزائیدہ بچی لاپتہ ہو گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کسان کے چار بچے زندہ بچ گئے تھے جس میں اس بچی کی بہن بھی شامل تھی جو ابھی انیس سال سے کم عمر ہے ۔اس افغان لڑکی نے اے پی کو بتایا کہ جب فوجیوں نے حملہ کیا تھا تو چالیس دن کی اس کی شیر خوار بہن جسے اٹھا کر وہ پناہ کے لیےبھاگ رہی تھی، تیز ہوا کے باعث اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر گئی تھی جسے اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا ۔
حملے کے بعد کسان کے رشتے داروں نے اس کے زندہ بچ جانے والے بچوں کو تلاش کر لیا اور انہیں اپنی نگرانی میں لے لیا ۔لیکن انہیں بہت تلاش کے بعد بھی وہ بچی نہیں ملی۔ کچھ عرصے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بچی زخمی ہو گئی تھی اور وہ ایک فوجی ہسپتال میں ہے۔ جہاں جوشوا اس کا علاج کرا رہے تھے اور وہ اسے گود لے کر امریکہ لانا چاہتے تھے۔
حکومت اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے اس بچی کے اصل وارثوں کا پتہ چلانے کے لئے چھان بین کی, اس کے زندہ بچ جانے والے رشتے داروں کو اکٹھا کیا اور اس بچی کو اس کے رشتہ داروں سے ملوا دیا گیا ۔ بعد میں بچی کو اس کے ایک رشتے دار جوڑے کے سپرد کر دیا گیا ۔
لیکن جوشوا ہر صورت بچی کو امریکہ لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکہ آکر ورجینیا کی ایک عدالت سے بچی کو گود لینے کی اجازت حاصل کر لی ۔ اور دو سال سے بھی کم عرصے میں افغانستان سے امریکی فوجیو ں کے انخلا کے دوران انہوں نے اس بچی اور اس کے نگران جوڑے کو امریکہ لانے میں کامیاب ہو گئے۔
نگران جوڑے اور بچی کے امریکہ پہنچنے کے کچھ ہی دن بعدجوشوا نے پناہ گزینوں کے اس کیمپ سے رابطہ کیا جہاں انہیں رکھا گیا تھا اور وہاں کے متعلقہ وفاقی ملازموں کے تعاون سے اس بچی کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔
افغان جوڑا اس بچی کو واپس لینے کے لئے عدالتی کارروائی کر رہا ہے لیکن یہ معاملہ ابھی تک التوا کا شکار ہے ۔
افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بچی افغانستان کی ہے اور امریکہ کی فیڈرل حکومت کےوکلا نے عدالتی کاغذات میں لکھا ہے کہ ، امریکی حکومت نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ عدالتی ریکارڈ میں “Baby Doe,” کے طور پر درج وہ بچی ایک افغان شہری ہے اور اس کے خونی رشتے دار افغانستان میں ہیں، لیکن جوشوا خاندان اس سے سخت اختلاف کرتا ہے ۔
محکمہ دفاع کے ایک عہدے دار نے اے پی کو بتایا ہے کہ جوشوا نے عدالت میں جو سمری داخل کروائی ہے وہ اس نے 2019 میں افغان بچی کو گود لینے کی قانونی کارروائی میں استعمال کے لئے تیار کی تھی لیکن وہ لازمی طور پر درست یا مکمل معلومات نہیں ہے ۔
اے پی نے جب فوج سے اس حملے کےبارے میں تبصرے کی درخواست کی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح بند دروازوں کے پیچھے عدالتی سماعت میں گواہی دینے والے کئی فوجیوں نے بھی کسی تبصرے سے انکار کر دیا ۔ اور ان کی گواہی کو سیل کر دیا گیا ہے ۔
اس بچی کی تحویل کا مسئلہ کب حل ہو گا اور یہ مسئلہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ماضی کے حملوں سے متعلق مزید کن سوالات کو جنم دے گا؟ اس کا انحصار اس مقدمے کے فیصلے پر ہو گا۔ یہ فیصلہ کب ہو گا اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیاہے۔)
فورم