ایسے متعدد لوگ ہوں گے جو مصنوعی ذہانت والے چیٹ جی پی ٹی کے بعد یہ سوچ کر خوش ہوں گے کہ اب انہیں اپنے دماغ پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت کم سے کم پڑے گی لیکن ماہرین" اطلاعاً بیان" کرتے ہیں کہ آپ جوں جوں اسے استعمال کریں گے توں توں یہ آپ کو اپنے انسانی رنگ دکھاتی جائے گی، یعنی آپ کی مدد کے ساتھ ساتھ اسے بھی جھوٹ، دروغ گوئی اور آپ کو دھوکہ دینے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
اور اس کا ادراک ہر اس کاروبار، آرگنائزیشن اور طالب علم کو ہے جو مختلف کاموں کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظام سے کام لینےکی کوشش میں ہے ،لیکن اس نظام سے حاصل ہونے والی معلومات غلط ہوئیں تو ان سے سب سے زیادہ متاثر، نفسیاتی معالج ،قانونی بریفنگ دینے والے اور ریسرچرز ہو سکتے ہیں ۔
ٹیکساس میں قائم سٹارٹ اپ اوپن اے آئی، اینتھروپک کی شریک بانی اور صدر ڈینیلا امودے نے کہا، "میں نہیں سمجھتی کہ اس وقت مصنوعی ذہانت سے چلنے والا کوئی ایسا ماڈل موجود ہے جو سو فیصد درست معلومات فراہم کر سکے اورجس میں کسی غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہو۔"
اینتھروپک،چیٹ جی پی ٹی بنانے والی اوپن اے آئی اور مصنوعی ذہانت کے دیگر سسٹمز کے بڑے ڈویلپرز کا کہنا ہے کہ وہ ان میں غلطی کے امکان کو کم سے کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس میں کتنا وقت لگے گا اور کیا یہ نظام طبی اور قانونی مشورے محفوظ طریقے سے دینے کے قابل ہو پائیں گے؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
لسانیات کی پروفیسر اور واشنگٹن یونیورسٹی کی کمپیوٹیشنل لسانیات کی لیبارٹری کی ڈائریکٹر ، ایملی بینڈر نے کہا،"اسے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا یہ ٹیکنالوجی اور اس کے اندر فیڈ کیے گئے ڈیٹا یا کیسزکےپروگرام کا ایک حصہ ہے ۔"
اے آئی کی جنریٹو ٹیکنالوجی پر بہت کچھ منحصر ہے ۔مکنزی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق،یہ عالمی معیشت میں 2.6 ٹریلین ڈالر سے 4.4 ٹریلین ڈالر کے برابر اضافہ کرے گی۔چیٹ بوٹس ، مصنوعی ذہانت کے اس جنون کا محض ایک حصہ ہیں، جن میں ایسی ٹیکنالوجی بھی شامل ہے جو تصاویر، ویڈیوز، میوزک اور کمپیوٹر کوڈ تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے تقریباً تمام ٹولز میں لنگوسٹک کا کچھ حصہ شامل ہوتا ہے۔
گوگل پہلے ہی نیوز آرگنائزیشنز کو خبریں لکھنے والے مصنوعی ذہانت کےایسے ٹولز کی پیشکش کر رہا ہے، جن کے لیے درستگی سب سے اہم جز ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس بھی اوپن اے آئی کے ساتھ شراکت داری کے ایک حصے کے طور پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے ۔ مصنوعی ذہانت کا یہ پروگرام اپنےسسٹم کو بہتر بنانے کے لیے اے پی کے ٹیکسٹ آرکائیو کو استعمال کرنے کے لیے ادائیگی بھی کر رہا ہے۔
بھارت کے کمپیوٹر سائنٹسٹ گنیش باگلر، برسوں سے ہوٹل مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر اے آئی کے نظام اور چیٹ جی پی ٹی کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ جنوبی ایشیائی کھانوں کی ترکیبیں تخلیق کرنے میں مدد فراہم کی جا سکے جیسا کہ بریانی کا نیا ورژن تخلیق کرنا وغیرہ ۔کیونکہ کسی بھی کھانے میں ایک غلط مصالحے کے استعمال سے یہ مزیدار ڈش کے بجائے آپ کے معدے میں گرانی کا باعث بن سکتی ہے ۔
جب اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے جون میں بھارت کا دورہ کیا تو باگلر نے ان کے سامنے کچھ سوالات رکھے اور کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی میں غلطی کا امکان اب بھی قابل قبول ہے، لیکن جب بات کسی کھانے کی ترکیب کی آتی ہے تو معاملہ تھوڑا حساس ہو جاتا ہے ،اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
آلٹمین نے اس مسئلے کے کسی حل کے بارے میں اگرچہ کسی کمٹمنٹ کا وعدہ تو نہیں کیا تھا لیکن اس میں بہتری کی امید کا اظہار ضرور کیا تھا ۔
آلٹ مین نے کہا، "میں سمجھتا ہوں کہ ہم غلط معلومات کے مسئلے کو بہت حد تک درست کر لیں گے لیکن میرے خیال میں اس میں ہمیں ڈیڑھ یا دو سال کا عرصہ لگ جائے گا۔ اس وقت ہم اس بارے میں بات نہیں کریں گے تاہم اے آئی کے ان ماڈلز کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کوکب کیا چاہیے۔"
لیکن واشنگٹن یونیورسٹی کی ماہر لسانیات ایملی بینڈر جیسے کچھ ماہرین کے لیے جنہوں نے ٹیکنالوجی کا مطالعہ کیا ہے اتنی إصلاحات یا بہتری کافی نہیں ہے ۔ایملی بینڈر،زبان کے ماڈل کو "لفظ کی شکلوں کے مختلف تاروں " کے ایسے نظام کے طور پر بیان کرتی ہیں جسے تحریری اعداد و شمار کے پیش نظر تربیت دی گئی ہوتی ہے اورجب آپ کوئی غلط لفظ ٹائپ کرتے ہیں تو ہجے چیک کرنے والا سسٹم اس کا پتہ لگا لیتا ہے ۔ بینڈر کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ اس کی خودکار ترجمہ اور ٹرانسکرپشن سروسز اس کو بہتر بنانے اور آؤٹ پٹ کو آپ کی مطلوبہ زبان میں عام ٹیکسٹ کی طرح لکھنے اور دیکھنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہیں ۔"
بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ ٹیکسٹ پیغامات یا ای میلز لکھتے وقت "آٹو کریکشن" کا استعمال کرتے ہیں تو اس ٹیکنالوجی کے ورژن پر انحصار کرتے ہیں۔
ایملی بینڈر کہتی ہیں کہ چونکہ مصنوعی ذہانت کے سسٹمز ذہن کا استعمال کیے بغیر متن کو جیسا ہے ویسے کی بنیاد پر ہی پیش کرتے ہیں لہذا جب ان کا لکھا گیا متن ہماری منشا کے مطابق ہوتا ہے تو یہ محض اتفاق سے ہوتا ہے اور حتیٰ کہ اگر وہ زیادہ تر درست جواب بھی دیں تب بھی غلطی کے امکان کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔
کمپنی کے صدر شین اورلک کہتے ہیں کہ یہ غلطیاں ان مارکیٹنگ فرموں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں جو پچز لکھنے میں مدد کے لیے اے آئی کی طرف رجوع کر رہی ہیں۔ان کاکہنا تھا ،" میں جانتاہوں کہ غلطیوں کے امکان کا مسئلہ آسانی سے طے نہیں ہو گا اور یہ بھی کہ یہ کبھی حل ہو گا بھی یا نہیں لیکن شاید وقت کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جائے ۔
(اس خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)
فورم