اگست 1947 میں جب بھارت اور پاکستان قائم ہوئے تو یہ اس اعتبار سے بھی ایک منفرد واقعہ تھا کہ ان ممالک کے قیام کا اعلان تو پہلے ہو گیا تھا، لیکن ان ممالک میں شامل ہونے والے علاقوں کا فیصلہ آئندہ کئی ماہ تک نہیں ہو سکا۔
اس کی وجہ ہندوستان کی سیاسی اور انتظامی تقسیم تھی۔ اس کے ایک حصے پر تاجِ برطانیہ کی حکومت تھی جسے برطانوی فرماں روا کے مقرر کردہ وائسرائے دہلی سے چلاتے تھے۔ اسے برطانوی ہندوستان کہا جاتا تھا جسے انگریز حکومت نے انتظامی امور کے لیے 11 صوبوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
برطانوی ہند میں مرحلہ وار متعارف کرائی گئی اصلاحات کے بعد ان صوبوں میں انتخابات ہوتے تھے اور یہ انتظامی اعتبار سے سلطنتِ برطانیہ کے ماتحت تھے۔ 1919 کی اصلاحات کے بعد یہاں وائسرائے کے نمائندے کے طور پر گورنر حکمرانی کرتے تھے جب کہ مقامی سطح پر قانون ساز ادارے اور وزارتوں کا انتخاب بھی کیا جاتا تھا۔
دوسری جانب ہندوستان کے تقریباً 40 فی صد رقبے پر کم و بیش 600 کے قریب ایسی ریاستیں تھیں جہاں مہاراجہ، مہارانا، نواب، راجا، جاگیردار، گائیکوار، نظام، جام، والی اور دیگر القابات رکھنے والے حکمران برسرِ اقتدار تھے۔
شاہی ریاستوں یا ’پرنسلی اسٹیٹس‘ کہلانے والی ان چھوٹی بڑی ریاستوں میں حیدرآباد جیسی بڑی ریاست بھی شامل تھی جس کی آبادی تقسیم کے وقت ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد تھی اور رقبہ برطانیہ سے بھی زیادہ تھا۔
دوسری جانب کئی ایسی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی تھیں جن کا رقبہ دس مربع میل سے بھی کم تھا اور آبادی بمشکل ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔
برطانوی مؤرخ لینرڈ موسلی اپنی کتاب ’لاس ڈیز آف برٹش راج‘ میں لکھتے ہیں کہ ان ریاستوں میں بہت کچھ مختلف ہونے کے باوجود ایک بات یکساں تھی کہ دہلی میں بننے والے قوانین کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا تھا۔ تاہم یہ ریاستیں سلطنتِ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے مطابق چلتی تھیں۔ اس کے بدلے میں برطانوی حکومت شاذ و نادر ہی ان کے داخلی امور میں مداخلت کرتی تھیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ شاہی ریاستوں کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہی۔ لیکن مؤرخین کے نزدیک یہ سوال اہم ہے کہ ہندوستان پر اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود برطانیہ نے ہندوستان کے طول و عرض میں ان سینکڑوں ریاستوں کو کیوں برقرار رہنے دیا؟
ریاستیں کیسے بنیں؟
امریکی مؤرخ باربرا راموسیک نے ’انڈین پرنسز اینڈ دیئر اسٹیٹس‘ میں ہندوستان کی شاہی ریاستوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے۔
ان کے مطابق ان شاہی ریاستوں کی پہلی قسم قدیم ریاستیں تھیں۔ ان میں وہ ریاستیں شامل تھیں جو ہندوستان میں مغل سلطنت کے قیام سے پہلے تیرہویں صدی سے وجود رکھتی تھیں۔ سولہویں صدی میں مغل سلطنت کے قیام کے بعد یہ ریاستیں فوجی اور مالی معاونت کے معاہدوں کے ذریعے مغلوں کی ماتحت ہو گئیں۔
بعد ازاں کم و بیش انہیں بنیادوں پر ان ریاستوں نے ہندوستان میں قائم ہونے والی برطانیہ کی مرکزی حکومت کی سرپرستی بھی قبول کی۔ ان میں زیادہ تر راجپوتانہ، وسطی ہندوستان اور شملہ پہاڑی سلسلے میں قائم ریاستیں شامل تھیں۔
دوسری ریاستوں کو باربرا راموسیک نے ’جانشین ریاستوں‘ کا نام دیا ہے جن کی تاریخ مغل دور کے زوال سے جا ملتی ہے۔
سن 1707 میں مغل شہنشہاہ اورنگزیب کے انتقال بعد جب مغلیہ سلطنت کم زور ہونا شروع ہوئی تو اس کے کئی بڑے صوبوں کے والی اور گورنر وغیرہ دہلی میں جاری اقتدار کی کشمکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے صوبوں کے خود مختار حکمران بن گئے۔ اس طرح اودھ، بنگال اور حیدرآباد دکن جیسی ریاستیں وجود میں آئیں۔
شاہی ریاستوں کی تیسری قسم وہ تھی جنھوں نے مغل سلطنت کے زوال کے بعد مختلف علاقوں میں اقتدار کے خلا کو پر کیا اور مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے مقامی حکومتیں قائم ہوئیں۔ ان میں بھوپال، رام پور اور مرہٹوں کی قائم کی گئی ریاستیں شامل تھیں۔
تجارتی مفادات کی جنگ
سولہویں صدی میں یورپی تجارتی کمپنیوں نے ہندوستان کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا اور 1651 میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں سے اجازت نامہ حاصل کر کے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال میں تجارت شروع کرچکی تھی۔ ہندوستان میں فرانس اور برطانیہ کی مخاصمت اور تجارتی مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے یہ قوتیں حکومتیں گرانے اور بنانے کے کھیل کا حصہ بن چکی تھیں۔
اس بساط پر فیصلہ کُن معرکہ جون 1757 میں ہوا جب پلاسی کے میدان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر نہ صرف ہندوستان کے میدان سے اپنے حریف فرانس کو باہر کردیا بلکہ یہاں اپنی حکمرانی کی بنیاد بھی رکھ دی۔
سراج الدولہ کی شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں نوابین کی جو حکومت قائم کی تھی اس میں پہلی بار کمپنی نے لارڈ کلائیو کو دیوان (وزیر) مقرر کیا۔ وہ بنگال کے پہلے برطانوی گورنر تھے اور یہیں سے ہندوستان کی مقامی ریاستوں میں برطانوی نمائندوں کی شمولیت کا سلسلہ شروع ہوا جس نے انہیں فیصلہ سازی میں براہِ راست شامل کردیا۔
مؤرخ شیکھر بندیوپادھیائے نے اپنی کتاب ’فرام پلاسی ٹو پارٹیشن‘ میں لکھا ہے کہ جنگِ پلاسی میں کامیابی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی ہند میں اپنی سول سروس کا آہنی ڈھانچہ کھڑا کرنا شروع کر دیا۔
اس جنگ میں کامیابی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی کے بجائے سیاسی اتھارٹی کی شکل اختیار کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں میں کمپنی کے کمرشل ایجنٹس کو ریزیڈنٹس کی حیثیت مل گئی۔ یہ ایجنٹس پہلے کمپنی کے تجارتی مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ لیکن اب وہ کمپنی کی حکومت اور شاہی ریاستوں کے درمیان سیاسی امور کے فیصلے بھی کرنے لگے۔
کمپنی سے حکومت تک
برطانوی دور میں اعلیٰ سول بیورو کریٹ اور بھارت کے قیام کے بعد ریاستی امور کے سیکریٹری رہنے والے وی پی مینن نے اپنی کتاب ’دی اسٹوری آف انٹیگریشن آف دی انڈین اسٹیٹس‘ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی کمپنی سے حکومتی بندوبست میں تبدیل ہونے کا ارتقائی سفر بیان کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ 1799 میں ٹیپو سلطان کی موت اور شکست کے بعد برطانیہ نے ہندوستان میں فرانسیسی اثر و رسوخ کا باب مکمل طور پر بند کر دیا اور ساتھ ہی یہاں اپنے اقتدار کا دائرہ پھیلانا شروع کر دیا۔
ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد حیدرآباد دکن، تراونکور، میسور، بڑودا اور گوالیار جیسی ریاستوں نے برطانیہ کے ساتھ عہدِ وفاداری کرلیا اور 1805 کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان ریاستوں سے اپنی من چاہی پالیسیوں کی تائید حاصل کرنا شروع کر دی۔ اس دور میں کمپنی نے اتحاد کی پالیسی متعارف کرائی تھی جس میں مقامی ریاستیں کمپنی کو خراج دے کر یا اس کی مالی معاونت کے عوض اس سے اتحاد بنانے لگیں۔
اس کے بعد 1813 سے 1823 کے دوران گورنر جنرل لارڈ وارن ہیسٹنگز کے دور میں ’پیراماؤنٹسی‘ یا برطانوی بالادستی کی پالیسی متعارف کرائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی ریاستوں کا اپنے ساتھ الحاق کرنے کا جواز دے دیا گیا۔
اس پالیسی کے خلاف کرناٹک کی ایک چھوٹی سی ریاست کتور کی رانی چِنمّا نے کمپنی کے خلاف 1824 میں بغاوت کی۔ لیکن انہیں گرفتار کرلیا گیا اور ان کی موت بھی کمپنی کی قید میں ہوئی۔
مزاحمت اور ناپسندیدگی کے باوجود مقامی ریاستوں میں کمپنی کا اثر بڑھتا گیا اور اس کے خلاف مخالفت کے جذبات بھی پنپنے لگے۔ 1848 میں گورنر جنرل بننے والے لارڈ ڈلہاؤزی کے دور نے کمپنی سے متعلق مقامی ریاستوں کے خدشات کو مزید ہوا دی۔ 1856 تک جاری رہنے والے ان کے دور میں کمپنی نے ریاستوں کو اپنے انتظامی ڈھانچے میں ضم کرنا شروع کر دیا۔
اسی دور میں انہوں نے ’ڈاکٹرائن آف لیپس‘ متعارف کرایا جس کے تحت کسی بھی ریاست کے فرماں روا کے مرد وارث نہ ہونے کی صورت میں اس ریاست کو کمپنی کی حدود میں شامل کردیا جاتا تھا۔
ڈلہاؤزی کے دور ہی میں اودھ جیسی بڑی ریاست کو بھی بد انتظامی کی بنیاد پر کمپنی میں ضم کرلیا گیا۔ مؤرخین کے مطابق اودھ حکومت کے خاتمے نے کمپنی مخالف جذبات کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
مینن اور دیگر مؤرخین نے اودھ کے سقوط کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو 1857 میں ہونے والی بغاوت کے اسباب میں شمار کیا ہے۔
ایک قدم آگے۔۔۔
اگرچہ 1857 میں ہونے والی بغاوت کامیاب نہیں ہو سکی تھی اور اس کے نتیجے میں انگریزوں نے دہلی میں برائے نام قائم مغل حکومت کو بھی لپیٹ دیا تھا، لیکن اس کے بعد برطانیہ نے ہندوستان کا نظم و نسق براہِ راست سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے برطانوی پارلیمنٹ نے بیٹر گورنمنٹ ایکٹ 1858 کی منظوری دی اور ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت چلنے والا انتظام تاجِ برطانیہ کے ماتحت کر دیا گیا۔
اس قانون کی منظوری کے بعد باقی ہندوستان میں تو سلطنتِ برطانیہ کے نمائندے براہِ راست حکومت کرنے لگے۔ لیکن 1860 میں گورنر جنرل لارڈ کننگ ایک پالیسی لے کر آئے جس میں شاہی ریاستوں کے الگ وجود کو تسلیم کیا گیا۔
ساتھ ہی اس پالیسی میں شاہی ریاستوں میں جانشینی کے فیصلوں میں برطانوی حکومت کو باقاعدہ کردار دے دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت کسی بھی شاہی ریاست میں جانشین مقرر کرنے کے لیے اس کی سند کی منظوری تاجِ برطانیہ سے لینا ضروری ہو گیا۔
وی پی مینن لکھتے ہیں کہ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے لارڈ کننگ جو پالیسی لائے تھے اس میں ہندوستان کی برطانوی حکومت کو کسی شاہی ریاست میں بد انتظامی کی صورت میں اس کے حکمران کو معزول کرنے کی گنجائش تو رکھی گئی تھی، لیکن برطانوی حکومت کو کسی ریاست کو ضم یا ختم کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔
ان کے مطابق اس کے بعد آئندہ پانچ دہائیوں میں ہندوستان میں برطانوی حکومت کی مشینری میں ریاستوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کئی تبدیلیاں آتی رہیں۔ لیکن ان ریاستوں کی علیحدہ حیثیت کو ہمیشہ برقرار رکھا گیا۔
توپوں کی سلامی اور درجہ بندی
آئینی طور پر یہ ریاستیں برطانوی ہند کا حصہ نہیں تھیں اور نہ ہی ان میں رہنے والے برطانوی رعایا شمار ہوتے تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ کو شاہی ریاستوں کے لیے قانون سازی کا اختیار نہیں تھا اور یہ ریاستیں بظاہر براہِ راست برطانوی فرماں روا کے ماتحت تھیں۔
لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد رفتہ رفتہ شاہی ریاستوں کے لیے سلطنتِ برطانیہ سے وفاداری کی قیمت بڑھتی گئی اور ان کے حکمرانوں کی ذمے داریوں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔
ان ریاستوں کے حکمران خاندانوں کے اختیار اور اعزاز کے لیے برطانیہ نے پورا نظام مرتب کیا۔ اس نظام میں ریاستوں کی درجہ بندی رقبے، آمدن اور اہمیت کے مطابق کی گئی تھی۔ ریاستوں کی درجہ بندی کے علامتی اظہار کے لیے ان کی اہمیت کے اعتبار سے ان کے فرماں رواؤں کی سلامی کے لیے توپوں کی تعداد بھی مقرر تھی۔
مثلاً رقبے اور آمدن کے لحاظ پانچ بڑی ریاستوں حیدرآباد، میسور، بڑودا، جموں و کشمیر اور گوالیار کے حکمرانوں کے لیے 21 توپوں کی سلامی مقرر تھی جب کہ کئی چھوٹی ریاستوں کے حکمرانوں کے لیے صرف نو توپوں کی سلامی رکھی گئی تھی۔
ایسی ریاستیں جن کے لیے توپوں کی سلامی مقرر تھی ان کی تعداد 117 تھی جب کہ اس کے علاوہ چند مربع میل پر پھیلی ریاستوں یا جاگیروں کے حکمرانوں کو شاہی ریاست یا راج کمار وغیرہ جیسے القابات تو حاصل تھے، لیکن ان کا شمار 'گن اسٹیٹس' میں نہیں ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے ریاستی فرماں رواؤں کو اعزازات اور خطابات سے بھی نوازا جاتا تھا۔ ان میں سے کئی ریاستوں کے اختیار کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی جانشینی کی توثیق اور راج پاٹ پر ہونے والے کسی تنازع کے حل کے لیے بھی برطانوی حکومت کے مرہونِ منت تھے۔
سیاست اور ریاست کا توازن
’فرام پلاسی ٹو پارٹیشن‘ کے مصنف شیکھر بندیوپادھیائے لکھتے ہیں کہ سلطنتِ برطانیہ نے شاہی ریاستوں کے وجود کو اس لیے برقرار رکھا تھا کہ اس کے پاس ہندوستان کے وسیع و عریض خطے پر حکمرانی کے لیے مطلوبہ افرادی قوت نہیں تھی۔
پھر ماتحت ریاستوں کی مدد سے حکومت چلانے اور محصولات وغیرہ جمع کرنے پر اس کے اپنے وسائل بھی صرف نہیں ہوتے تھے۔ اس طرح سینکڑوں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہندوستان حکمرانی کے لیے زیادہ موزوں تھا۔
بندیوپادھیائے کے نزدیک اس کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ 1880 کی دہائی میں برطانوی ہندوستان میں قوم پرست تحریکیں سر اٹھا رہی تھیں۔
صوبائی اور شہری سطح کی کونسلز میں مقامی باشندوں کی شمولیت ہو رہی تھی اور 1885 میں کانگریس کے قیام کے بعد بیسویں صدی کے آغاز تک یہ ہندوستانی قومیت کے سیاسی نمائندے کی شکل اختیار کر رہی تھی۔ بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ، ہندو مہا سبھا اور ان جیسی دیگر سیاسی قوتیں بھی میدان میں آ رہی تھیں۔
مصنف کے نزدیک برطانوی انتظامیہ ہندوستانی قوم پرستی کے تصور سے جنم لینے والی سیاسی قوتوں کے مقابلے میں خاندانی وراثت کے اصول پر قائم ریاستوں کو اپنا بہترین اتحادی سمجھتی تھی۔
دوسری جانب ان ریاستوں کو بھی ہندوستان میں آنے والی آئینی اصلاحات اور سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے مسلسل خطرہ درپیش رہتا تھا۔ ان تحفظات کو دور کرنے اور شاہی ریاستوں کو ہندوستان میں جاری سیاسی عمل کا فریق بنانے کے لیے 1920 میں برطانیہ کے شاہ جارج پنجم نے 'چیمبر آف پرنسز' بھی قائم کر دیا تھا۔
اس چیمبر کے 120 ارکان تھے جن میں سے 108 بڑی ریاستوں کے نمائندے تھے جب کہ 127 چھوٹی ریاستوں کے 12 نمائندوں کو اس میں شامل کیا گیا تھا۔
اس چیمبر نے 1935 میں ہندوستان کو ایک فیڈریشن بنانے کی تجویز کی بھی مخالفت کی تھی کیوں کہ انہیں خدشہ تھا کہ اس صورت میں ان کی اپنی انفرادی حیثیت ختم ہو جائے گی اور انہیں ایک مرکزی حکومت میں ضم ہونا پڑے گا۔
لیکن بعد کے واقعات نے بالآخر ان ریاستوں کے لیے بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے انتخاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔
بدلتے حالات
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور برطانیہ میں بھی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ جنگ کے بعد ہونے والے الیکشن میں لیبر پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی جو پہلے ہی ہندوستان سے واپسی کا اشارہ دے چکی تھی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد لیبر پارٹی سے منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے فروری 1947 میں اعلان کر دیا تھا کہ 30 جون 1948 تک اقتدار ہندوستان کو منتقل کر دیا جائے گا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی انہوں نے لارڈ ویول کی جگہ ایڈمرل وسکاؤنٹ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے مقرر کر دیا اور انہیں جون 1948 تک اقتدار ہندوستانی قیادت کو منتقل کرنے کی ذمے داری بھی سونپ دی۔
مارچ 1947 میں ہندوستان پہنچنے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہاں آکر کانگریس اور مسلم لیگ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ ان مذاکرات میں ہندوستانی قیادت پر یہ بات بھی واضح ہوگئی تھی کہ ماؤنٹ بیٹن اپنے ساتھ انتقالِ اقتدار کا کوئی منصوبہ نہیں لائے۔
دو ڈھائی ماہ تک رابطوں اور ملاقاتوں کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے جون 1947 میں تقسیمِ ہند اور انتقالِ اقتدار کے لیے کانگریس، مسلم لیگ اور دیگر ہندوستانی قیادت کو تقسیم کے منصوبے سے متعلق آگاہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان کر کے بھی حیرت زدہ کردیا کہ اقتدار کی منتقلی 1948 کے بجائے صرف دو ماہ بعد ہی، یعنی 15 اگست کو کر دی جائے گی۔
وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تین جون کو تقیسم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا تو اس میں کئی ابہام تھے۔ سلطنتِ برطانیہ کے تحت قائم ہندوستان کے صوبوں میں سے دو - پنجاب اور بنگال - کی تقسیم ہونا تھی جس کے لیے باؤنڈری کمیشن مقرر کیا گیا تھا جسے ایک ماہ کی قلیل مدت میں اپنا کام مکمل کرنا تھا۔
اس کمیشن کی ذمے داری برطانوی وکیل سر ریڈ کلف کو دی گئی تھی جو اس سے قبل کبھی ہندوستان ہی نہیں آئے تھے اور نہ ہی اس ملک کے جغرافیائی اور سماجی حقائق سے واقفیت رکھتے تھے۔
ہندوستان میں اس وقت شاہی ریاستوں کی تعداد 560 سے زائد تھی اور وہ برِصغیر کے نصف رقبے کے برابر تھیں۔ لیکن دل چسپی کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے میں ان ریاستوں کے مستقبل کا کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔
برطانوی مصنف لینرڈ موسلی کے مطابق ادھر 'چیمبر آف پرنسز' میں شامل بڑی ریاستوں کا تاثر یہ تھا کہ برطانیہ کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی ان کی علیحدہ حیثیت بحال ہو جائے گی۔ اس تاثر کی بنیاد 1946 میں اقتدار کی منتقلی کے لیے پیش کیا گیا کیبنٹ مشن منصوبہ تھا جس میں شاہی ریاستوں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی یہ ریاستیں بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گی۔
ریاستیں آزاد کیوں نہیں ہوئیں؟
تین جون کے منصوبے پر کانگریس اور مسلم لیگ کے اتفاق کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 'چیمبر آف پرنسز' اور دیگر شاہی ریاستوں کے نمائندوں سے ملاقات میں واضح کردیا تھا کہ برطانیہ تقسیم کے بعد صرف بھارت اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے گا۔
شاہی ریاستوں کے الحاق پر ’پرنسلی افیئرز‘ کے مصنف یعقوب خان بنگش کے مطابق برطانیہ کو معلوم تھا کہ اگر وہ ہندوستانی ریاستوں کی آزادانہ حیثیت تسلیم کرنے کا تاثر دیتا تو کانگریس تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر دیتی جس سے ایک نیا بحران جنم لے سکتا تھا۔
جواہر لعل نہرو واضح اعلان کر چکے تھے کہ ہندوستان کی مقامی ریاستوں میں سے کسی کو الگ حیثیت میں تسلیم کیا تو اسے دوستی کا اقدام تصور نہیں کیا جائے گا۔
اسی لیے برطانیہ نے عالمی سطح پر بھی اس کا بندوبست کیا کہ ہندوستان کی کوئی مقامی ریاست اپنی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر بھی دے تو کوئی دوسرا ملک اسے تسلیم کرنے سے گریز کرے۔
جون 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے منصوبے کا اعلان ہونے کے بعد بعض شاہی ریاستوں نے اپنی آزادی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی آزاد حیثیت کی توثیق کی کوششیں بھی شروع کر دی تھیں۔
یعقوب خان بنگش لکھتے ہیں کہ بعض ریاستوں نے امریکہ سے بھی سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں۔ لیکن برطانیہ نے امریکہ پر واضح کر دیا تھا کہ وہ اس کی مشاورت کے بغیر ہندوستان کی کسی بھی ریاست سے سفارتی تعلقات قائم نہ کرے۔
’الحاق کے کاغذات گم ہو گئے‘
مؤرخین کے مطابق کانگریس ہندوستانی قومیت کی تصور کے تحت پورے ہندوستان کو ایک جغرافیائی وحدت کے طور پر برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ اسی لیے شاہی ریاستوں کے الحاق کے لیے بھارت نے تیزی سے کام شروع کیا۔
جولائی 1947 ہی میں ریاستی امور سے متعلق سردار ولبھ بھائی پٹیل کی نگرانی میں اسٹیٹس ڈپارٹمنٹ فعال ہو گیا تھا۔ وی پی مینن جیسے کہنہ مشق بیورکریٹ اس کے سیکریٹری مقرر کیے گئے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے برطانوی ہندوستان میں مقامی ریاستی امور سے وابستہ تھے۔
یعقوب بنگش کے مطابق ادھر پاکستان کے لیے شاہی ریاستوں سے متعلق محکمہ ہی 11 اگست 1947 کو بنایا گیا جس کی نگرانی سردار عبدالرب نشتر کو دی گئی تھی۔ پاکستانی اسٹیٹس ڈیپارٹمنٹ نے ابتدائی طور پر صرف ان ریاستوں سے رابطے کیے جن کے حکمران مسلمان تھے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ انتظامی طور پر درپیش مسائل اور الحاق سے متعلق واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ایسی کئی ریاستوں سے رابطہ ہی نہیں کیا گیا جو بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے الحاق کرنے کو ترجیح دے سکتی تھیں۔
اس کی ایک نمایاں مثال ریاست منی پور تھی جو پاکستان کا حصہ بننے والے مشرقی بنگال کے قریب ہی واقع تھی اور اپنے جغرافیے کے اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے الحاق اس کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ لیکن منی پور کے مہاراجہ سے حکومتِ پاکستان نے رابطہ ہی نہیں کیا۔
اسی طرح آسام اور بنگال کی سرحد سے ملحق پہاڑی علاقوں میں قائم خاسی قبائل کی ریاستوں نے 1947 ہی میں پاکستان سے الحاق کے لیے رجوع کر لیا تھا اور پاکستانی کابینہ نے نومبر 1947 میں اس کی منظوری بھی دے دی تھی۔
لیکن بعد میں یہ الحاق معما بن گیا کیوں کہ اس الحاق کی تمام دستاویزات غائب ہو گئیں۔ 1950 تک پاکستان کی وزارتِ خارجہ یا اسٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجنز منسٹری (سیفرون) کو معلوم ہی نہیں تھا کہ خاسی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔
مؤرخ ڈاکٹر آئین کوپلینڈ شاہی ریاستوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پالیسی سے متعلق اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ جناح نے ابتداً یہ پالیسی اختیار کی تھی کہ ہندوستان میں جو بھی ریاست آزادی کا اعلان کرے، اسے تسلیم کرلیا جائے۔
ان کے نزدیک جناح کے خیال میں آزاد ریاستوں کے قیام کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کا جغرافیہ اور خطے میں اس کی قوت محدود ہو گی۔ لیکن بعد کے واقعات سے یہ پالیسی مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔
آئین کوپلینڈ کے مطابق یہ پالیسی اسی صورت کارگر ثابت ہوتی جب پاکستان میں ایک مضبوط انتظامی اور سیاسی قوت اس کے پیچھے کھڑی ہوتی۔ مہاجرین کی آمد، وسائل کی تقسیم، سیاسی تدبر رکھنے والے قائدین اور تجربہ کار انتظامی افسران کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو اس پالیسی سے الٹا نقصان پہنچا۔
ریاستوں کا الحاق
چند ریاستوں کے علاوہ ہندوستان کی زیادہ تر ریاستوں نے اگست 1947 تک بھارت سے الحاق کر لیا تھا۔ حیدرآباد، کشمیر اور قلات نے آزاد ریاست رہنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن ان میں سے صرف حیدر آباد ہی ستمبر 1948 تک اپنے اس فیصلے پر قائم رہنے میں کام یاب ہو سکی۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ریاستی الحاق سے پیدا ہونے والے تنازعات میں سے کشمیر آج تک برقرار ہے جب کہ حکومتِ پاکستان آج بھی بھارت کی حدود میں آنے والی ریاست جونا گڑھ کے اپنے ساتھ الحاق کا دعویٰ کرتی ہے۔
پاکستان میں شامل ہونے والی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست قلات کا الحاق اگرچہ 27 مارچ 1948 کو ہو گیا تھا، لیکن بعد ازاں خان آف قلات نے پاکستان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر دیا۔ 1955 میں ون یونٹ کے قیام کے ساتھ ریاستِ قلات میں شامل علاقے مغربی پاکستان میں ضم کر دیے گئے اور 1970 میں ون یونٹ ختم ہونے کے بعد ان علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بلوچستان بنا دیا گیا۔
اس کے علاوہ خیرپور، بہاولپور، چترال، امب، سوات، دیر اور ہنزہ و نگر کی شاہی ریاستیں بھی پاکستان کا حصہ بنیں۔
بھارت نے 1970 میں شاہی ریاستوں کے فرما رواؤں کے القابات کی سرکاری حیثیت اور انہیں حکومت سے ملنے والے وظائف ختم کر دیے۔ پاکستان نے بھی 1971 میں شاہی ریاستوں کی اعزازی حیثیت ختم کر دی تھی تاہم ان کے حکمرانوں کے لیے ’اعزازیہ‘ برقرار رکھا۔
پاکستان میں اس قانون میں آخری بار 2009 میں ترمیم کی گئی جس کے بعد اس اعزازیے میں دو سو فی صد اضافہ کیا گیا۔
فورم