برطانیہ کی تاریخ میں طویل ترین عرصے تک فرماں روا رہنے والی ملکہ الزبتھ دوم کچھ عرصےکے لیے پاکستان کی سربراہ مملکت بھی رہیں۔ ان کے اس منصب کی اہمیت کو پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی برسوں میں ہونےو الے ایک آئینی بحران کی عدالتی بحث میں حوالے کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔
عدالت میں ہونے والی اس بحث سے قبل برطانیہ کے شاہی خاندان کی برصغیر میں قائم ہونے والی ریاستوں بھارت اور پاکستان سے تعلق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
جب 1947 میں ہندوستان کو سلطنتِ برطانیہ سے آزادی ملی تو اقتدار نئے بننے والے ممالک کو منتقل کیا گیا تھا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ انیسویں صدی میں تاجِ برطانیہ کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہندوستان میں وائسرائے برطانوی سلطنت کا نمائندہ ہوتا تھا۔ وائسرائے کو بنیادی طور پر تاجِ برطانیہ کے دیے گئے اختیارات کے تحت قوانین کی توثیق اور امورِ سلطنت چلانے کا اختیار حاصل تھا۔
اسی اختیار کے تحت کانگریس اور مسلم لیگ سمیت ہندوستانی نمائندوں سے مذاکرات کے بعد تین جون 1947 کو اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے برطانوی سلطنت سے اقتدار دو نئی قائم ہونے والی ریاستوں بھارت اور پاکستان کو منتقل کرنے کے لیے قانونِ آزادیٔ ہند 1947 جاری کیا تھا۔اسی لیے جب دونوں ملک قائم ہوئے تو یہاں کے سربراہانِ مملکت گورنر جنرل تھے۔ برطانوی نو آبادیات میں گورنر جنرل تاجِ برطانیہ ہی کا نمائندہ ہوتا تھا اور اس سے وفاداری کا حلف اٹھاتا تھا۔
آزادی کے بعد بھارت نے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل بنایا تھا جب کہ پاکستان میں یہ منصب محمد علی جناح نے سنبھالا۔
آئین سازی میں تاخیر
قیامِ پاکستان کو کئی برس گزرنے کے بعد بھی سیاسی قیادت ملک کا متفقہ آئین نہیں بنا سکی تھی۔ جس کی وجہ سے قانونِ آزادیٔ ہند 1947 کی دفعہ 18 اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو بعض ترامیم کے ساتھ عبوری آئین کے طور پر اختیار کرلیا گیا تھا اور اسی پر ملک کا انتظام و انصرام چل رہا تھا۔ اگرچہ یہ بندوبست محض انتظامی امور چلانے کے لیے تھا لیکن ایک مکمل دستور کی ضروریات پوری نہیں کرتا تھا۔
قانونِ آزادیٔ ہند ایکٹ 1947 کے تحت دونوں ممالک میں ایک دستور ساز اسمبلی بھی قائم کی گئی تھی اور جس کا مقصد نو قائم شدہ ریاستوں کا آئین بنانا تھا۔
محمد علی جناح قیامِ پاکستان کے بعد 1948 ہی میں انتقال کرگئے اور آئین سازی تاخیر کا شکار رہی اور ان کے بعد ملک کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے دور میں بھی آئین سازی کا مرحلہ طے نہیں پاسکا۔
سن 1951 میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزارتِ عظمی سنبھال لی تھی اور بیورو کریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔
خواجہ ناظم الدین نے بنیادی اصولوں کی ایک کمیٹی بنا کر دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے سفارشات تیار کرائیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی کی تجویز کی وجہ سے مسلم لیگ کے اندر ہی تنازعات پیدا ہو گئے۔
اسی دوران احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلانے کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے مغربی پاکستان کے کئی شہروں میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا۔
گورنر جنرل غلام محمد اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے تھے اور انہوں نے اس بحران کو بنیاد بنا کر 17 اپریل 1953 کو خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کردیا۔اس کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرر کردیا۔
وزیرِ اعظم محمد علی نے دستور سازی کے لیے ایک فارمولا پیش کیا۔ اس کے تحت مجلسِ دستور ساز نے آزادیٔ ہند ایکٹ میں بعض ایسی ترامیم کیں جن کے نتیجے میں گورنر جنرل کے اختیارات محدود ہوسکتے تھے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف صفدر محمود اپنی تصنیف ’مسلم لیگ کا دورِ حکومت‘ میں لکھتے ہیں کہ غلام محمد گورنر جنرل کی حیثیت سے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اگر آئین بن جاتا تو یہ ممکن نہ ہوتا۔
ان ترامیم کے بعد غلام محمد کے خدشات مزید بڑھ گئے اور انہوں نے 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی ہی کو تحلیل کرکے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی۔
معاملہ عدالت پہنچ گیا
گورنر جنرل کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اس اقدام کے خلاف دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے (جنھیں اس وقت اسمبلی کا صدر کہا جاتا تھا) سندھ چیف کورٹ ( ہائی کورٹ) سے رجوع کر لیا۔
مولوی تمیز الدین نے اپنی درخواست میں عدالت سے گورنر جنرل کے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے حکم نامے اور کابینہ کی برطرفی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔
سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ دستور ساز اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے اور گورنر جنرل کو جواب دہ نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ 1947 سے لے کر 1954 میں یہ مقدمہ عدالت میں آنے تک دستور ساز اسمبلی نے کئی قوانین بنائے اور ان میں ترامیم کی ہیں لیکن گورنر جنرل سے ان کی منظوری نہیں لی گئی۔ اس کے باوجود ان قوانین کے مطابق عدالتی فیصلے ہوتے رہے۔
سندھ چیف کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ گورنرجنرل کو اسمبلی برطرف کرنے اور ہنگامی حالت کے نفاذ کا اختیار نہیں ہے اور وہ دستور ساز اسمبلی کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی کی توثیق کا پابند ہے۔
ملکہ کی نمائندگی کا دعویٰ
ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف گورنر جنرل نے اس وقت کی فیڈرل کورٹ میں اپیل کر دی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ برطانیہ سے آزاد ہونے والی ماتحت ریاست (ڈومینئن) میں کسی بھی قانون سازی کے لیے گورنر جنرل کی توثیق ضروری ہے۔
اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر تھے۔ جسٹس منیر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس اپیل کی سماعت کی جس میں گورنر جنرل نے یہ سوال اٹھایا کہ ملکۂ برطانیہ کے نامزد کردہ گورنر جنرل کے پاس دستور ساز اسمبلی کے بنائے گئے قوانین منسوخ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ اور کیا دستور ساز اسمبلی 1947 کے بعد 1954 تک آئین سازی میں کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے نمائندگی کے حق سے محروم ہوگئی ہے۔
اس دلیل کی ایک بنیاد یہ بھی تھی کہ آزادی سے قبل ہندوستان میں قائم ہونے والی قانون ساز اسمبلیوں سے منظور ہونے والے قوانین کو صوبوں میں گورنر اور مرکز میں وائسرائے کی منظوری حاصل کرنا ہوتی تھی۔
عوام کا ردّ عمل
وفاقی عدالت میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو مولوی تمیز الدین اور گورنر جنرل دونوں نے نمائندگی کے لیے انگریز وکلا کا انتخاب کیا تھا۔
اس عدالتی کارروائی پر عوامی ردعمل کے بارے میں بی بی سی سے وابستہ رہنے والے براڈ کاسٹر اور سینئر صحافی علی احمد خان نے اپنی یادداشتوں ’جیون ایک کہانی‘ میں کچھ تفصیلات بتائی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں: ’اس زمانے میں اس مقدمے کی کارروائی اخبارات میں لفظ بہ لفظ شائع ہوتی تھی اور ہم لوگ اسے پڑھتے بھی لفظ بہ لفظ ہی تھے، اور آپ یقین مانیں، جب وکیلِ سرکار کی جانب سے تاجِ برطانیہ کے نمائندے کی حیثیت سے گورنر جنرل کے اختیارات کا ذکر کیا جاتا تو ہم لوگوں کو بڑی شرمندگی محسوس ہوتی اور اس بات پر بھی کہ حکومت کی جانب سے مقدمے کی پیروی کے لیے برطانیہ سے وکیل کیوں بلایا گیا ہے۔‘
علی احمد خان لکھتے ہیں کہ گورنر جنرل غلام محمد کے اس اقدام کا مقصد کچھ بھی ہو لیکن مشرقی پاکستان میں اس کا بہت منفی اثر پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ اتفاق سے گورنر جنرل غلام محمد کا تعلق پنجاب سے تھا اور مولوی تمیز الدین، وزیراعظم بوگرہ اور اس سے پہلے معزول کیے جانے والے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا۔ اس لیے اسمبلی توڑنے کے اس فیصلے سے دونوں حصوں میں فاصلے مزید بڑھ گئے۔
'گورنر جنرل تاجِ برطانیہ کا نمائندہ ہے'
پانچ رکنی بینچ کے اکثریتی فیصلے میں عدالت نے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کی قانونی حیثیت کا تعین نہیں کیا لیکن ریاست میں قانون سازی کو گورنر جنرل کی توثیق سے مشروط کردیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سندھ چیف کورٹ کو دستور ساز اسمبلی تحلیل کرنے کے گورنر جنرل کے فیصلے کو کالعدم قراردینے کا اختیار نہیں تھا۔
اکثریتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے سیکشن پانچ میں (ڈومینئن) ماتحت ریاست کی جو اسکیم بیان کی گئی ہے اس کے مفہوم کے مطابق گورنر جنرل تاجِ برطانیہ کا نمائندہ ہے۔ اسی حیثیت میں وہ جب کسی وفاقی قانون کی توثیق کرتا ہے تو وہ ملکہ ہی کے نام سے ہوتی ہے یعنی ان کی جانب سے تصور ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی سندھ ہائی کورٹ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے آرٹیکل 233 اے میں ہونے والی ایک ترمیم کے تحت یہ فیصلہ سنایا تھا جبکہ گورنر جنرل نے اس ترمیم کی توثیق ہی نہیں کی تھی۔ اس لیے عدالت سرے سے اس معاملے پر سماعت کا اختیار ہی نہیں رکھتی تھی۔
اس فیصلے میں جسٹس اے آر کارنیلئس نے اختلافی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ قانون سازی کے لیے گورنر جنرل کی توثیق لازمی نہیں ہے۔
معروف قانون دان حامد خان نے اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف جوڈیشری ان پاکستان‘ کے مطابق جسٹس کارنیلئس نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح نے گورنر جنرل کے حلف میں ترمیم کرائی تھی۔ انہوں نے صرف بادشاہ کی وفاداری کے بجائے آئین کے تابع رہنے کا حلف بھی اٹھایا تھا۔
محمد علی جناح کے بعد آنے والے گورنر جنرلز نے بھی یہی حلف اٹھایا تھا جس میں آئین سے وفاداری کو فرماں روائے برطانیہ سے وفاداری پر فوقیت دی گئی تھی۔
جسٹس اے آر کارنیلئس نے اس میں یہ نکتہ بھی اٹھایا تھا کہ برطانیہ میں کسی نئے حکمران کے تخت نشین ہونے کے بعد (ڈومینئن) ما تحت ریاستوں کی اسمبلی اس سے وفاداری کا اظہار کرتی ہیں۔ لیکن جون 1953 میں ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی کے بعد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے سامنے یہ معاملہ نہیں لایا گیا۔
ان دلائل کی بنیاد پر جسٹس اے آر کارنیلئس نے قرار دیا کہ اگرچہ ڈومینئن ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ملکہ کو ایک علامتی حیثیت حاصل ہے لیکن اس کی وہ اہمیت نہیں جو گورنر جنرل کے اقدام کے حق میں بطور دلیل بیان کی گئی ہے۔
انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ پاکستان نے قانونِ آزادیٔ ہند کو اختیار کیا ہے لیکن آزاد ریاست کی حیثیت سے یہاں گورنر جنرل کو تاجِ برطانیہ کے نمائندے جیسے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
بادشاہت سے بادشاہ گری تک
اس اپیل پر 21 مارچ 1955 کو عدالت نے فیصلہ سنایا جس کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں’نظریۂ ضرورت‘ کی بازگشت سنائی دی۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی دوبارہ تحلیل کر دی اور وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ کی سربراہی میں نئی کابینہ تشکیل دے دی جس میں سرحد سے ڈاکٹر خان صاحب اور مشرقی پاکستان سے حسین شہید سہرودی جیسے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل ایوب خان کو بھی وزارتِ دفاع کا عہدہ دے کر کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔
بعدازاں 1956 میں ملک کا پہلا آئین بننے کے بعد پاکستان کی ڈومینئن کی حیثیت ختم کرکے اسے جمہوریہ بنا دیا گیا اور گورنر جنرل کا عہدہ بھی ختم کردیا گیا ہے اور ملکہ برطانیہ کی یہ علامتی حیثیت بھی ختم ہوگئی۔ لیکن قانون دان حامد خان کے مطابق مولوی تمیز الدین کیس کے اس فیصلے سے فوج اور بیوروکریسی ملک میں بادشاہ گر بن گئے۔