بھارت کے بابائے قوم موہنداس کرم چند گاندھی فروری 1948 میں پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے۔ تاہم، اس سے چند ہی روز قبل 30 جنوری 1948 کو نئی دہلی کے برلہ ھاؤس میں انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔
اُن کا قاتل نتھورام گوڈسے انتہا پسند تنظیم ’ہندو مہاسبھا‘ کا رکن تھا۔ اس سے پہلے وہ عسکریت پسند ہندو قوم پرست تنظیم ’راشٹریہ سوایم سیوک‘ (آر ایس ایس) کا رکن تھا۔ قتل کے بعد گوڈسے کا کہنا تھا کہ گاندھی ’’پاکستان کے بابائے قوم‘‘ تھے۔
اسی روز محمد علی جناح نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’مجھے یہ جان کر شدید صدمہ ہوا ہے کہ گاندھی پر حملہ کر کے اُنہیں سفاکانہ طریقے سے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ہمارے اختلافات جس قدر بھی شدید ہوں، گاندھی ہندو برادری میں جنم لینے والے بہترین انسانوں میں سے ایک تھے۔
محمد علی جناح کا مزید کہنا تھا " گاندھی ایک ایسے لیڈر تھے جن کا عالمی سطح پر احترام کیا جاتا تھا۔ میں اُن کے انتقال پر شدید صدمے کا اظہار کرتا ہوں اور ہندوستان اور پاکستان کے آزادی کے فوراً بعد رونما ہونے والے اس افسوسناک واقعے پر عظیم ہندو برادری اور ان کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ بھارت کا یہ نقصان ناقابل تلافی ہے اور ایسے عظیم شخص کے گزر جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنا انتہائی دشوار ہو گا۔''
حکومت پاکستان نے گاندھی کے احترام میں 4 فروری کو سرکاری تعطیل کا بھی اعلان کیا۔
گاندھی کا 150 واں یوم پیدائش دو اکتوبر کو منایا گیا اور اقوام متحدہ نے بھی گاندھی کی یاد میں دو اکتوبر کو عدم تشدد کا عالمی دن قرار دیا ہے۔
گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے نے بہت سے عالمی رہنماؤں کو بھی متاثر کیا جن میں مارٹن لوتھر کنگ جونئیر، نیلسن منڈیلا اور سابق امریکی صدر براک اوباما بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ گاندھی اور جناح کے پس منظر میں اگرچہ بہت سی باتیں مشترک ہیں، لیکن دونوں کی سیاست اور نظریے میں بہت فرق تھا۔
’گاندھی۔جناح خطوط‘ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کو لکھے گئے ان خطوط سے دونوں کے سیاسی نظریات میں فرق کھل کر واضح ہو جاتا ہے۔ جناح نے گاندھی کو لکھے گئے خطوط میں بار بار اس کی وضاحت کی تھی کہ قیام پاکستان کیوں ضروری ہے۔ تاہم، گاندھی اس تصور سے اتفاق نہیں کرتے تھے اور متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔
گاندھی کے قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد بھارت میں ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم، موجودہ دور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں پہلے سے موجود گاندھی مخالف بیانیے کو تقویت ملی ہے اور ملک میں انتہا پسندی زور پکڑ گئی ہے۔
معروف امریکی تھنک ٹینک ’نیو امریکہ فاؤنڈیشن‘ سے وابستہ محقق اور تجزیہ کار رضا رومی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گاندھی مسلمانوں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گاندھی کی شخصیت، سیاست اور انسانی کمزوریوں کے باوجود ان کی سوچ اور فلسفہ آفاقی تھا اور حالیہ دنوں میں وہ پاکستان میں بھی تھوڑی بہت جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں گاندھی کے قاتل کے نظریے کو بی جے پی حکومت کے موجودہ دور میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور ملکی سطح پر انتہا پسندوں کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی حالیہ برسوں کے دوران انتہا پسندی بڑھی ہے۔
گاندھی اور جناح کا موازنہ کرتے ہوئے رضا رومی نے کہا کہ دونوں رہنما انسانیت کو مقدم رکھنے کی سوچ کے حامی تھے۔ گاندھی کے عدم تشدد کے نظریے کی بنیاد انسانیت پر ہے۔ اسی طرح، جناح نے اپنی مختلف تقاریر اور بیانات میں چائلڈ میرج، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق جیسے جن نظریات کے لیے 1920، 1930 اور 1940 کی دہائیوں کے دوران آواز بلند کی تھی، ان پر پاکستان میں اب بحث و تمحیص کا آغاز ہوا ہے۔
گاندھی ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے شدید مخالف رہے ہیں اور قیام پاکستان سے قبل انہوں نے نہرو اور سردار پٹیل سمیت کانگریس کے رہنماؤں کو الگ رکھتے ہوئے جناح کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم بننے اور اپنی تمام کابینہ مسلم لیگ سے منتخب کرنے کی پیشکش کی تھی۔ تاہم، جناح کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان نہ بننے کے مقابلے میں دیمک زدہ پاکستان بھی ان کے لیے قابل قبول ہوگا۔‘‘
جناح اور گاندھی کے درمیان ہونے والا ایک مکالمہ خاصا مشہور رہا ہے جس میں گاندھی نے جناح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آپ نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے۔‘‘ جواب میں جناح نے گاندھی سے کہا، ’’آپ نے ہندوؤں کو ہپنوٹائز کر دیا ہے۔‘‘
تاریخی ریکارڈز کے مطابق، جناح اور گاندھی دونوں 1946 کے 'کیبنٹ مشن' منصوبے کے حامی تھے، جس میں ہندوستان کو متحد رکھتے ہوئے کنفیڈریشن کے طرز پر تین یونٹس کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اسے تسلیم نہ کیے جانے پر جناح کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا تاریک ترین دن ہے، جبکہ گاندھی نے خفگی کے طور پر پنڈت نہرو اور سردار پٹیل سے چار پانچ روز تک بات چیت بند کر دی تھی۔
تاہم، قیام پاکستان کے بعد گاندھی نے ہندو رہنماؤں سے درخواست کی تھی کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اثاثوں کی تقسیم کے سمجھوتے کے تحت پاکستان کو واجب الادا 55 کروڑ روپے کی رقم پاکستان کو فوراً ادا کر دی جائے۔ اس میں سے 20 کروڑ روپے کی پہلی قسط ادا کر دی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ جس روز گاندھی کو قتل کیا گیا وہ پاکستان کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد بھارتی حکومت نے بقیہ 35 کرور ڈالر کی رقم روک لی تھی جسے بعد میں کبھی ادا نہیں کیا گیا۔