رسائی کے لنکس

طالبان کنٹرول کے دوسال مکمل: افغانستان کو ایک پر امن ملک دیکھنا چاہتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ


کابل ائیر پورٹ پر طالبان کے جھنڈے۔ فائل فوٹو
کابل ائیر پورٹ پر طالبان کے جھنڈے۔ فائل فوٹو

ویب ڈیسک۔امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ،' امریکہ افغانستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، جس میں امن ہو، جس کے اپنے پڑوسی ملکوں سے تعلقات پر امن ہوں، جو اپنے پاوں پر کھڑا ہو'۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے یہ بات پیر کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران کہی۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی پالیسی اسی مقصد کے گرد گھومتی ہے کہ افغان عوام کی مدد کی جائے ، افغان عوام کو موجودہ انسانی اور معاشی بحران سے نکالنا ہماری اولین ترجیح ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ انسانی ہمدری کی بنیاد پر افغانستان کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے، اور ہم نے اگست 2021 کے بعد سے افغانستان کو زندگی بچانے والی اشیا کی مد میں یک اعشاریہ نو ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔

خوست میں دھماکہ

پندرہ اگست منگل کے روز طالبان کو دوسری بار افغانستان کا کنٹرول سنبھالے دو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ دوسرے سال کا اختتام پیر کو مشرقی صوبے خوست میں ایک ہوٹل دھماکے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد کی ہلاکت اور سات افراد کے زخمی ہو نے سےہوا۔

خوست میں پولیس کے ایک ترجمان مستغفیر گرباز نے بتایا کہ دھماکہ شہر کے ایک ایسے ہوٹل میں ہوا جس میں پاکستان کے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے لوگ اکثر آتے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ افسران اس بات کا تعین کرنے کے لیے تفتیش کر رہے ہیں کہ دھماکے کی وجہ کیا ہے اور اس کے پس پردہ کون ہے۔ترجمان نے ہوٹل میں مقیم پاکستانی شہریوں کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

فوری طور پر اس دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی، لیکن افغانستان میں دہشت گردی کے دیگر حالیہ واقعات کے لئے طالبان انتظامیہ نے دولت اسلامیہ یعنی داعش کی علاقائی شاخ داعش خراسان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے بہت سے رہنماؤں اور جنگجوؤں کو افغانستان میں پناہ گاہیں ملی ہیں جس سے پاکستانی طالبان بھی مضبوط ہوئے ہیں تاہم افغان طالبان اس تاثر کو تسلیم نہیں کرتے۔

خوست دہماکہ
خوست دہماکہ

طالبان کنٹرول کے دو سال مکمل : خواتین پر پابندیاں اور معاشی مشکلات برقرار

طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا ۔ اس وقت بیس سال کی جنگ کے بعد ملک سے امریکی اور نیٹو افواج کاانخلاء آخری مراحل میں تھا۔ طالبان کو اقتدار پر قبضے کے دوران کسی قابل ذکر مخالفت یا مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، جو ان کی حکومت کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے نظریاتی طور پر مضبوط لیڈر کی قیادت میں اپنی صفوں میں کسی بھی نوعیت کی اندرونی تقسیم سے گریز کیا ہے۔ انہوں نے متمول علاقائی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے مذاکرات کرتے ہوئے کمزور معیشت کو رواں رکھا ہےحالانکہ بین الاقوامی برادری نے انہیں با ضابطہ طور پر تسلیم بھی نہیں کیا۔

انہوں نے اسلامک اسٹیٹ یا داعش جیسے مسلح گروپوں کے خلاف کارروائی جاری رکھتے ہوئے ملکی سلامتی کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بدعنوانی اور افیون کی کاشت کے خلاف بھی نبردآزما ہیں ۔

لیکن انہوں نے افغان لڑکیوں اور خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو دوسرے سال بھی غالب رہی ہیں۔ انہوں نے انہیں پارک، جم، یونیورسٹیوں میں جانے اور غیر سرکاری گروپوں اور اقوام متحدہ کے اداروں میں ملازمتوں سے روک دیا اور یہ سب کچھ چند مہینوں کے وقفے میں کیا گیا۔

اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے مبینہ طور پر یہ کہا گیا کہ وہ لڑکیاں اور خواتین حجاب کا مناسب استعمال نہیں کر رہی تھیں اور صنفی علیحدگی کے قوانین کی خلاف ورزی بھی ہو رہی تھی ۔ طالبان کی حکومت کے پہلے سال کے دوران لڑکیوں کے لیے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے بعد دوسری پابندیوں کا آغاز ہوا۔

افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج
افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج

طالبان کے شریعہ قوانین ، خواتین کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں کی آزادی میں رکاوٹ کیوں؟

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں شریعت کی اپنی تشریح کے حوالے سے اسلامی قانو ن کے نفاذ کے لیے پرعزم ہیں۔ اس کے تحت ایسی کسی بھی چیز کے لیے کوئی جگہ نہیں جو غیر ملکی یا سیکولر ہو اور اس میں خواتین کا ملازمت کرنا یا تعلیم حاصل کرنا بھی شامل ہے ۔

1990 کی دہائی کے اواخر میں جب انہوں نے افغانستان میں پہلی بار اقتدار پر قبضہ کیا تو بھی وہ اسی انداز میں حکومت کرتے تھے اور اب 15 اگست 2021 کو دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اسی انداز کو دوبارہ اپنا رہے ہیں ۔

ان کے رہبر اعلیٰ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نافذ ہونے والی تبدیلیوں کو سراہا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کےانخلا اور حجاب کے استعمال کو دوبارہ لازمی قرار دینے کے بعد افغان خواتین کی زندگی میں بہتری آئی ہے۔

ان پابندیوں پر ردعمل

غیر ملکی حکومتوں، انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں اور عالمی اداروں نے ان پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہ پا بندیاں ایک ایسی بڑی رکاوٹ ہیں جو طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے میں حائل ہے۔

بیرونی امداد ختم ہو رہی ہے کیونکہ کلیدی عطیہ دہندگان نے اپنی فنڈنگ روک دی ہے۔ دوسرے بحرانوں کی وجہ سے ان کی توجہ بٹ گئی ہے اور پھر یہ خدشہ بھی ہے کہ ان کی رقم طالبان کے ہاتھ لگ سکتی ہے۔

فنڈز کی کمی کے ساتھ ساتھ افغان خواتین کی انسانی بنیادوں پر ضروری سہولتوں کی فراہمی سے محرومی ایک ایسی وجہ ہے جس کے تمام آبادی پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ مزید لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل رہی ہے۔

افغانستان میں روز مرہ زندگی کی ایک تصویر
افغانستان میں روز مرہ زندگی کی ایک تصویر

طالبان کا افغانستان، معیشت اور عام لوگوں کی زندگی

مغربی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے بجٹ کا تقریباً 80 فیصد بین الاقوامی برادری فراہم کرتی تھی ۔ اب اس رقم میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے جس سے اسپتالوں، اسکولوں، فیکٹریوں اور حکومتی وزارتوں کی مالی اعانت کی جاتی تھی ۔

کووڈ کی وبا، طبی شعبے میں ضروری اشیا کے فقدان ، موسمیاتی تبدیلی اور غذائی قلت نے افغان افراد کے لیے زندگی دوبھر کر دی ہے ۔ امدادی ایجنسیوں نے صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی خدمات کے فقدان کو پورا کرنے کے لیے اقدام کیے ہیں ۔

افغانستان کو مسلسل تیسرے سال خشک سالی، خاندانوں کی آمدن میں مسلسل کمی اور بین الاقوامی بینکنگ پر پابندیوں کا سامنا ہے اور ملک اب بھی عشروں کی لڑائی اور قدرتی آفات کا شکار ہے۔

عالمی بینک نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ مقامی کرنسی 'افغانی' کی قدر دوسری بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ صارفین اگست 2021 سے پہلے جمع کی گئی رقوم سے زیادہ رقم نکال سکتے ہیں اوربیشتر سرکاری ملازمین کو ادائیگی کی جا رہی ہے۔ عالمی بینک نے محصولات کی وصولی کو ’صحت مند‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ تر بنیادی اشیاء دستیاب ہیں حالانکہ ان کی طلب کم ہے۔

طالبان نے خطے کے ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے مذاکرات کیے ہیں جن میں چین اور قازقستان شامل ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پابندیاں ہٹائی جائیں اور اربوں ڈالر کے منجمد فنڈز جاری کیے جائیں۔طالبا ن کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے افغان عوام کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ لیکن عالمی برادری ایسا صرف اس وقت کرے گی جب طالبان کچھ اقدامات کریں جن میں خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیاں ہٹانا شامل ہے۔

طالبان کے وزیر اعظم محمد حسن اخوند کابل میں منعقد ایک اقتصادی کانفرنس میں
طالبان کے وزیر اعظم محمد حسن اخوند کابل میں منعقد ایک اقتصادی کانفرنس میں

طالبان کی طرف سے انداز فکر میں تبدیلی کا کتنا امکان ؟

طالبان کے اندازِ فکر میں تبدیلی کا انحصار طالبان رہنما اخوندزادہ پر ہے۔ وہ اپنے ہم خیال حکومتی وزراء اور اسلامی علما کو اپنے دائرے میں شمار کرتے ہیں ۔ وہ عورتوں اور لڑکیوں کے بارے میں احکام دینے کے ذمے دار ہیں ۔ اسلامی قانون کی زبان کے تحت دیے گئے ان کے احکامات حتمی ہیں۔

خواتین پر کوئی پابندی صرف اس صورت میں اٹھائی جائے گی جب اخوندزادہ اس کا حکم دیں گے۔ طالبان کی کچھ شخصیات نےان فیصلوں کے طریق کار کے خلاف بات تو کی ہے اور خواتین اور لڑکیوں پر پابندی کے بارے میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان خبروں کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کیا ہے۔

’’ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ متحد ہیں۔‘‘ یہ کہنا ہے عبدالسلام ضعیف کا جنہوں نے 1990 کی دہائی میں پاکستان میں طالبان کے ایلچی کے طور پر خدمات انجام دیں ۔

2001 میں امریکی حملے کے بعد گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں کئی سال گزارنے والے ضعیف نے کہا کہ ’’اگر کوئی اپنی رائے یا اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی قیادت کے خلاف ہے یا وہ کوئی اور راستہ اختیار کر لے گا۔اختلافات امیر اخوندزادہ کے سامنےلائے جاتے ہیں اور وہ فیصلہ کرتے ہیں اور باقی افراد ان کے کہے پر عمل کرتے ہیں۔‘‘

بین الاقوامی شناخت کی صورت کیا ہوگی؟

امدادی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کیے جانے کو ایک حق سمجھتے ہیں اوریہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس کے لیے بات چیت کی جائے ۔

حکام نے اس ضمن میں چین اور روس جیسی طاقتورقوتوں کے ساتھ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا حوالہ بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان اپنے طریقے سے دو طرفہ تعلقات استوار کر رہے ہیں۔

قطر کے وزیر اعظم نے جون میں جنوب مغربی افغان شہر قندھار میں اخوندزادہ سے ملاقات کی جو طالبان کے سپریم لیڈر اور کسی غیر ملکی اہلکار کے درمیان عوامی سطح پر اس طرح کی پہلی ملاقات تھی۔

طالبان۔ فائل فوٹو
طالبان۔ فائل فوٹو

طالبان کی مخالفت ہے کیا؟

اگرچہ طالبان عالمی سطح پر باضابطہ طور پر الگ تھلگ ہیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ وہ مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کافی بات چیت اور رابطے استوار کیے ہوئے ہیں۔ منشیات، پناہ گزینوں اور انسداد دہشت گردی پر طالبان کے ساتھ تعاون مغرب سمیت عالمی سطح پر دلچسپی کا باعث ہے۔ چین، روس اور ہمسایہ پاکستان جیسے ممالک طالبان پر عائد پابندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

ضعیف کہتے ہیں کہ "سیاسی رابطے ایسے ہیں کہ خطے کا کوئی بھی ملک افغانستان کو اپنے زیرِ اقتدار یا کنٹرول میں لانے کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ طالبان کی بیرونی دنیا تک رسائی میں رکاوٹ طالبان کا بلیک لسٹ ہونا ہے جو حکام کو سفر کرنے سے روکتا ہےاور دوسرے باقی دنیا کے ساتھ روابط کے لیے مشترکہ بنیاد کی کمی ہے۔

طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ملکی یا غیر ملکی حمایت کے ساتھ کوئی مسلح یا سیاسی مخالفت موجود نہیں ہے۔ طالبان کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کرنے والی ایک جنگجو فوج کو پرتشدد طریقے سے پسپا کیا جا رہا ہے جو کابل کے شمال میں پنجشیر وادی میں ہےجبکہ عوامی احتجاج کم ہی ہوتا ہے۔

اسلامک سٹیٹ یا داعش نے مہلک بم دھماکوں میں ہائی پروفائل اہداف کو نشانہ بنایا ہےجن میں دو سرکاری وزارتیں بھی شامل ہیں لیکن عسکریت پسندوں کے پاس طالبان کے خلاف کوئی بڑا حملہ کرنے کے لیے جنگجو، رقم اور دیگر وسائل کی کمی ہے۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG