افغانستان میں بر سرِ اقتدار طالبان کی جانب سے عائد پابندیوں کے بعد خواتین کو روزگار دینے کے لیے ایک کاروباری خاتون نے 'خفیہ' بزنس شروع کر دیا ہے۔
لیلیٰ حیدری نے ایسا کرافٹ سینٹر بنایا ہے جہاں گولیوں کے خول پگھلا کر اس سے زیورات بنائے جاتے ہیں اور بہت سی خواتین ان کے سینٹر میں روزگار حاصل کر رہی ہیں۔
پانچ ماہ قبل طالبان کے حامیوں نے لیلیٰ کا ریستوران تباہ کر دیا تھا جس کے بعد لیلیٰ نے اپنے کرافٹ سینٹر کی بنیاد رکھی جہاں اب نہ صرف زنانہ کپڑوں کی سلائی کا کام ہوتا ہے بلکہ مردانہ کپڑے، قالین اور گھروں کی زیب و آرائش کی اشیا بھی تیار کی جاتی ہیں۔
لگ بھگ 50 خواتین لیلیٰ کے سینٹر میں ملازمت کرتی ہیں جو ماہانہ 58 ڈالر تک کما لیتی ہیں جو لگ بھگ پانچ ہزار افغانی بنتے ہیں۔
طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ایسے میں لیلیٰ کا کرافٹ سینٹر ان خواتین کے لیے امید کی کرن بن گیا ہے جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے روزگار سے محروم ہو چکی ہیں۔
لیلیٰ کہتی ہیں اگر طالبان نے انہیں کام سے روکا تو وہ طالبان سےکہیں گی وہ ان خواتین کو پیسے دیں جو ان کے سینٹر میں کام کرتی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ہم اپنا گزارہ کیسے کریں گے؟
واضح رہے کہ 15 اگست 2021 کو افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور گزشتہ دو برس کے دوران خواتین کو مختلف پابندیوں سے گزرنا پڑا ہے۔
لیلیٰ کہتی ہیں کہ کرافٹ سینٹر کی بنیاد رکھنے کا مقصد ان خواتین کو ملازمت دینا ہے جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے۔
ان کے بقول یہ مستقل حل نہیں ہے لیکن اس سے کم از کم خواتین کو کھانا میسر آجائے گا۔
لیلیٰ کے ہینڈی کرافٹ سینٹر میں لگ بھگ 200 خواتین کو سائنس، ریاضی اور انگلش کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
ان خواتین میں بعض سینٹر آکر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بعض آن لائن کلاسز لیتی ہیں۔
لیلیٰ کہتی ہیں کہ وہ یہ نہیں چاہتیں کہ افغان خواتین تعلیم سے دور ہو جائیں اور آئندہ چند برس میں ملک میں ایک ناخواندہ نسل پروان چڑھے۔
چوالیس سالہ لیلیٰ کرافٹ سینٹر سے قبل کابل میں ایک ہوٹل کی مالک تھیں۔ ان کا ہوٹل دانش وروں، ادیبوں، صحافیوں اور غیر ملکیوں میں مقبول تھا جہاں موسیقی اور شاعری کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔
لیلیٰ نے منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے بحالی کا ایک مرکز بھی قائم کیا تھا۔وہ اپنے اس مرکز سے بھی محروم ہو گئی ہیں۔
لیلیٰ حیدری کے بقول ’’طالبان کے ملک پر قبضے کے چند دن بعد مسلح افراد اور مقامی لوگوں نے بحالی مرکز کے مریضوں کو باہر نکال دیا تھا۔ ہوٹل تباہ کر دیا تھا اور فرنیچر لوٹ لیا تھا۔‘‘
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کو زندگی کے بہت سے شعبوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود کئی شعبوں میں خواتین اپنا کاروبار کر رہی ہیں جس کے لیے بعض غیر ملکی تنظیمیں ان کی مدد بھی کر رہی ہیں۔
فلاحی تنظیم 'کیئر' طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی سے ہی خواتین کی بہبود کے لیے ایک پروگرام چلا رہی ہے۔ اس پروگرام کی مدد سے خواتین کو سلائی کڑھائی اور کھانے کی اشیا بنانا سکھایا جاتا ہے۔
کیئر کی مشیر برائے افغانستان میلیسا کورنیٹ کہتی ہیں کہ ’’ہمیں ان کاموں پر زیادہ توجہ دینا پڑی ہے جو خواتین گھروں میں بیٹھ کر کر سکتی ہیں جیسے سلائی، کڑھائی یا کھانے کی اشیا جیسے بسکٹ، جیم، اچار وغیرہ بنانا۔‘‘
کورنیٹ کے مطابق بعض افغان خواتین اپنی چھوٹی سی دکان بنانا چاہتی ہیں لیکن موجودہ حالات میں ایسا کرنا ان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
کورنیٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ خواتین ہینڈی کرافٹ سیکھ کر ماہانہ 100 ڈالر سے بھی کم کما رہی ہیں لیکن ان حالات میں یہ آمدنی بھی زندگی بدلنے کے لیے کافی ہے کیونکہ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے اور 85 فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔
فورم