بھارت اور چین نے لداخ سیکٹر میں سرحدی تنازع کو تیز رفتاری کے ساتھ اور بلا تاخیر حل کرنے کے لیے فوجی و سفارتی سطح پر مذاکرات جاری رکھنے اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
فریقین کے اس اعلان کے بعد نئی دہلی میں اس بات پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا نئی دہلی میں ستمبر میں بھارت کی میزبانی میں منعقد ہونے والے گروپ۔ 20 کے سربراہی اجلاس سے قبل دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات معمول پر آ جائیں گے۔
اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جی۔20 کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ کی شرکت کے امکانات کیا ہیں؟
دونوں ملکوں کے درمیان کور کمانڈر سطح پر 13 اور 14 اگست کو ہونے والا 19 ویں دور کا اجلاس پہلی بار دو روز تک چلا۔
اجلاس کے طول پکڑنے کے بارے میں فریقین کی جانب سے رازداری برتی گئی اور اجلاس کے اختتام کے بعد ہی میڈیا کو یہ بتایا گیا کہ بات چیت دو روز تک جاری رہی۔
اجلاس کے بعد فریقین کی جانب سے ایک مختصر مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق انہوں نے ایل اے سی پر متنازع مقامات کے سلسلے میں مثبت، تعمیری اور وسیع تر تبادلۂ خیال کیا اور باہمی قیادتوں کی فراہم کردہ رہنمائی کے مطابق کھلے ماحول میں اپنا اپنا مؤقف رکھا۔
اس بارے میں جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے بیجنگ میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ بات چیت خوش گوار ماحول میں اور مثبت اور تعمیری انداز میں ہوئی۔ چین مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کو سراہتا ہے۔
کیا برف پگھلے گی؟
تجزیہ کاروں کے مطابق چوں کہ یہ بات چیت 22 سے 24 اگست تک جنوبی افریقہ کے شہر جوہانس برگ میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس اور 9 اور 10 ستمبر کو نئی دہلی میں بھارت کی میزبانی میں ہونے والے دنیا کی 20 طاقت ور معیشتوں کے گروپ جی۔20 کے سربراہی اجلاس سے قبل ہو رہی تھی اس لیے اس کو اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔
ان کے مطابق برکس اور جی۔20 کے اجلاسوں میں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور صدر شی جن پنگ کی ملاقات اور دو طرفہ مذاکرات متوقع ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایل اے سی پر صورتِ حال کشیدہ نہ رہے اور باہمی تعلقات معمول پر آ جائیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جب بھارتی وزارتِ دفاع کے ذرائع سے مذاکرات کے نتائج کے سلسلے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بات چیت میں متعدد مسائل پر گفتگو ہوئی اور فریقین نے بحالی اعتماد کے ممکنہ اقدامات سے اپنی اپنی قیادتوں کو باخبر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ ان پر غور کر سکیں۔
نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے مطابق جب سیکیورٹی اہل کاروں سے پوچھا گیا کہ کیا چین دیپسانگ علاقے سے اپنی فوج کی واپسی اور بھارتی فوج کو گشت کی اجازت دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ مسلسل جاری رہنے والے مذاکرات کا حصہ ہے۔ تجزیہ کاروں نے اس کا یہ مطلب نکالا کہ بات چیت بے نتیجہ رہی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ اپریل 2020 سے قبل بھارتی فوج پیٹرولنگ پوائنٹ 10، 11، 11 اے، 12 اور 13 تک گشت کرتی تھی۔ لیکن اب چین نے بھارتی فوج کے وہاں تک جانے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ ایل اے سی پر اپریل 2020 سے قبل کی صورت حال بحال ہو۔
اُن کے بقول جہاں تک جی۔20 سربراہی اجلاس میں شی جن پنگ کی شرکت کا سوال ہے تو اس بارے میں تجزیہ کاروں میں اختلاف رائے ہے۔
کیا شی جن پنگ بھارت جائیں گے؟
ایک تجزیہ کار اجے کمار کا کہنا تھا کہ شی جن پنگ کی عدم شرکت کی کوئی بات نہیں ہے، تاحال ان کی شرکت یقینی سمجھی جا رہی ہے۔ وہیں پشپ رنجن کہتے ہیں کہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے بقول شی جن پنگ شرکت یا عدم شرکت کا فیصلہ اپنی گھریلو سیاست کو سامنے رکھ کر کریں گے۔ لیکن اگر انہوں نے اس میں ورچوئل شرکت کی تو پھر جہاں جی۔20 اجلاس کو بہت زیادہ کامیاب نہیں کہا جا سکے گا وہیں آنے والا وقت بتائے گا کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہے کہ یورپی یونین کے کئی ملک منی پور کے معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے اجلاس میں بالمشافہ شرکت نہ کریں۔ حکومت منی پور کے سلسلے میں عالمی برادری کو مطمئن نہیں کر سکی ہے۔
خیال رہے کہ جون 2020 میں بھارت اور چین کی افواج میں خونیں تصادم ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ چینی فوج نے بھارت کے کنٹرول کی متعدد پوائنٹس پر قبضہ کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ ایل اے سی کے بارے میں فریقین کے مؤقف میں فرق ہے۔
بھارت کا یہ بھی الزام ہے کہ چین نے اکسائی چن میں، جسے بھارت لداخ کا حصہ بتاتا ہے، 38 ہزار مربع کلومیٹر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جب کہ چین بھارت کے شمال مشرق میں تقریباً 90 ہزار مربع کلومیٹر پر دعویٰ کرتا ہے جس میں اروناچل پردیش بھی شامل ہے۔
پشپ رنجن کہتے ہیں کہ ایل اے سی پر قیامِ امن اس لیے بھی ضروری ہے کہ جوہانس برگ میں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور صدر شی جن پنگ کی ملاقات اور دوطرفہ امور پر مذاکرات کا امکان ہے۔
بعض تجزیہ کار اس خیال سے متفق ہیں کہ برکس اجلاس میں نریندر مودی کی بالمشافہ شرکت مشکوک ہے۔
ان کے بقول روس کے صدر ولادیمیر پوٹن برکس اجلاس میں ورچوئل شرکت کریں گے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی بھی ورچوئل ہی شرکت کریں۔
ان کے مطابق اس بارے میں حکومت میں اعلیٰ سطح پر تبادلۂ خیال چل رہا ہے اور ممکن ہے کہ ایک دو روز کے اندر صورتِ حال واضح ہو جائے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ چونکہ اگلے سال بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے مودی حکومت بہت غور و فکر کے بعد قدم اٹھا رہی ہے۔
اُن کے بقول حکومت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی جس کا اس کے انتخابی امکانات پر منفی اثر پڑے۔ بقول ان کے اس وقت بھارت کی خارجہ پالیسی داخلی سیاست کی وجہ سے گو مگو کی حالت میں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم مودی جوہانس برگ جاتے ہیں اور شی جن پنگ سے ہاتھ ملاتے ہیں، گلے ملتے ہیں اور خوش گوار انداز میں مذاکرات کرتے ہیں تو حزبِ اختلاف کی جماعتیں یہ کہہ کر مودی پر تنقید کر سکتی ہیں کہ چین نے بھارت کی زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور مودی شی جن پنگ سے گلے مل رہے ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ شی جن پنگ بھی اپنی داخلی سیاست کے پیش نظر اقدامات کر رہے ہیں۔ چونکہ ان کو گھریلو محاذ پر کچھ مسائل کا سامنا ہے اس لیے وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس کا ان کے سیاسی امکانات پر منفی اثر پڑے۔
واضح رہے کہ قبل ازیں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اپنے متعدد بیانات میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ چینی فوج کی جانب سے ایل اے سی کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی وجہ سے باہمی تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔
اُن کے بقول جب تک ایل اے سی پر معمول کی صورتِ حال بحال نہیں ہوتی رشتے معمول پر نہیں آ سکتے۔ چین بھارت پر ایل اے سی کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایل اے سی پر صورت حال اب بھی کشیدہ ہے۔ دیپسانگ اور ڈیمچوک میں ان مقامات پر بھارتی فوج گشت نہیں کر پا رہی ہے جہاں پہلے کرتی تھی۔ لہٰذا ان دونوں علاقوں میں جب تک صورت حال معمول پر نہیں آئے گی باہمی تعلقات بھی معمول پر نہیں آسکتے۔
فورم