پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خواتین کارکنان کی گرفتاری پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے ردِ عمل پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ خواتین کی گرفتاری پر ایچ آر سی پی کو چار ماہ بعد خیال آیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق ایچ آر سی پی اور خواتین کی دیگر تنظیموں کا ان گرفتاریوں پر ردِ عمل انتہائی مایوس کن ہے۔
ایچ آر سی پی نے پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کی گرفتاری پر دو روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی گرفتار شدہ خواتین کی حراست کے معاملے میں شفافیت کے فقدان پر تشویش ہے۔
کمیشن کا کہنا تھا کہ ان خواتین کی گرفتاری کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس وقت جیل میں کتنی خواتین قید ہیں۔ ان پر الزامات کی نوعیت کیا ہے، وہ کہاں قید ہیں اور انہیں کس عدالت میں پیش کیا جانا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ریمانڈ کے لیے چالان جاری ہوئے ہیں کہ نہیں۔
ایچ آر سی پی کے بیان میں اس صورتِ حال کو ناقابلِ قبول قرار دیا گیا ہے۔
اس معاملے پر تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں کہ ایچ آر سی پی کا رویہ افسوس ناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان خواتین کی گرفتار ہوئے تین سے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق اور خواتین کی تنظیموں کو اب خیال آ رہا ہے۔
رؤف حسن نے الزام لگایا کہ اس وقت انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔ ان خواتین کا حق تھا کہ انہیں فوری طور پر ضمانت دی جاتی لیکن انہیں کئی ماہ سے بغیر چارج فریم کیے حراست میں رکھا گیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان خواتین کو بدترین حالات میں رکھا گیا ہے۔ کئی خواتین کو اپنے گھر والوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ پی ٹی آئی نے اس معاملے پر مختلف فورمز پر آواز اٹھائی۔ لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح کرتے رہے ہیں کہ ان خواتین کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے جب کہ جیل میں بھی ان کے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں کیا جا رہا۔
رؤف حسن کے بقول پی ٹی آئی کی تمام خواتین اپنے لیڈر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہیں جب کہ عمران خان بھی کسی کے ساتھ کوئی ڈیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے اپنے وکلا کو بھی کہا ہے کہ کسی سے کوئی ڈیل نہیں ہو گی اور حقیقی آزادی کے حصول کے لیے یہ جنگ جاری رہے گی۔
'ہم کئی ماہ سے آواز اُٹھا رہے ہیں'
ایچ آر سی پی کی زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ ہم نے کئی بار آواز اٹھائی ہے کہ خواتین کو چارج فریم کیے بغیر اور ان کے خلاف چالان پیش کیے بغیر حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔ لیکن پی ٹی آئی کی خواتین کی حراست کو اب تین ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے جو انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ خواتین کا حق ہے کہ انہیں فوری طور پر ضمانت دی جائے اور اگر ان کے خلاف کوئی سنگین الزامات ہیں تو ان کا ٹرائل کیا جائے۔ لیکن ابھی تک کوئی ٹرائل شروع نہیں ہوا اور ہر 15 دن بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
زہرہ یوسف نے حکام سے مطالبہ کیا کہ ان خواتین کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور اگر ان کے خلاف الزامات ہیں تو ان کا ٹرائل کیا جائے۔
ان خواتین کی تعداد سے متعلق تحریک انصاف کے میڈیا سیل سے تعلق رکھنے والے رضوان احمد کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کی اصل تعداد کا علم نہیں ہو رہا ہے کیوں کہ حکام کی طرف سے کوئی مستند اطلاع نہیں دی جا رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ قابلِ ذکر خواتین کارکنان میں ڈاکٹر یاسمین راشد، خدیجہ شاہ، صنم جاوید، عالیہ حمزہ اور طیبہ راجہ شامل ہیں جنہیں نو مئی کے واقعات میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب پولیس نے خواتین کے ساتھ برے سلوک کے الزامات کی تردید کی ہے۔
آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان خواتین کو جیل میں خواتین کے سیل میں رکھا گیا ہے جہاں وہ بحفاظت ہیں۔ ان خواتین کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا جا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے کھانے پینے اور ان سے تفتیش کے لیے بھی صرف خواتین افسران ہی کام کررہی ہیں۔
ان خواتین کی تعداد کے حوالے سے پنجاب پولیس کی طرف سے کوئی تعداد نہیں بتائی گئی۔ البتہ اس بارے میں میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق ان کی تعداد 10تک ہوسکتی ہے۔
نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کی کئی خواتین نے پریس کانفرنس کے بعد پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کیا جس کے بعد ان کے خلاف کیسز تو موجود ہیں لیکن انہیں رہا کردیا گیا ہے۔ ان خواتین میں شیریں مزاری، ملیکہ بخاری، مسرت جمشید چیمہ اور دیگر خواتین شامل ہیں۔
فورم