ایران اور سعودی عرب کے درمیان برسوں جاری رہنے والی شدید دشمنی کے بعد بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر ایران میں کئی لوگ یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ بھی ایران کے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ لیکن ایران کی اسلام پسند سخت گیر حکومت اس سے اتفاق نہیں کرتی۔
ایرانی حکام کہتے ہیں کہ یہ سوچ رکھنے والوں کو 1953 کی اس بغاوت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جب امریکی سی آئی اے نے اس وقت کے ایران کے وزیراعظم محمد مصدق کے خلاف بغاوت منظم کر کے ان کا تختہ الٹ دیا تھا۔اس پس منظر کے ساتھ امریکہ پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک رپورٹ میں شمالی تہران میں فرنیچر کی ایک دکان کے نوجوان سیلز میں محسن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میرا ایک خواب ہے کہ ایران کے رہبر اعلیٰ امریکہ سے بات چیت کرنے اور تعلقات بہتر بنانے کی اجازت دے دیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات بحال کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی اجازت وہ امریکہ کے بارے میں بھی دے سکتے ہیں۔
1953 میں جب محمد مصدق ایران کے وزیر اعظم تھے، فوج نے ان کے خلاف بغاوت کر کے ان کی حکومت ختم کر دی تھی۔ اے پی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس بغاوت کو سی آئی اے نے منظم کیا تھا کیونکہ امریکہ کو یہ خدشہ تھا کہ ممکنہ طور پر مصدق کا جھکاؤ اس وقت کے سوویت یونین کی طرف تھا ، جس کے سبب ایران کے خام تیل کا حصول مشکل ہو سکتا تھا۔
ان دنوں سخت موقف رکھنے والا ایران کا سرکاری ٹی وی بار بار اس بغاوت کے حوالے سے پروگرام نشر کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ امریکہ پر کیونکر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
سابق وزیر اعظم محمدمصدق کی قبر تہران کے قریب ایک گاؤں میں ہے جس پر جانے کی ایرانی حکام اجازت نہیں دیتے۔
ایران میں جہاں اس وقت قدامت پرستوں اور اعتدال پسند سوچ رکھنے والوں کے درمیان شدید کشمکش جاری ہے۔ جس کا واضح اظہار گزشتہ سال کے اس واقعہ سے ہوتا ہے جب ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھی۔ اسے پولیس نے مقررہ لباس کوڈ کے مطابق سر نہ ڈھاپنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اس ہلاکت کے خلاف ہونے والے طویل ملک گیر مظاہروں میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ہزاروں گرفتار ہوئے، انہیں سزائیں ہوئیں اور کئی ایک کو پھانسی پرچڑھایا گیا۔
اگرچہ مظاہروں پر قابو پایا جا چکا ہے لیکن اندر ہی اندر آگ اب بھی سلگ رہی ہے۔
یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں تضادات عام ہیں۔یہاں جمعے کی نماز کے بعد امریکہ مردہ باد کے نعرے اب بھی سنے جا سکتے ہیں، جب کہ بہت سے لوگ سڑکوں پر یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا خیرمقدم کریں گے۔مگر یہ لوگ اپنا پورا نام اور اپنی شناخت ظاہر کرنے سے ڈرتے بھی ہیں۔
اگست 1953 کی بغاوت
امریکہ کو خدشہ تھا کہ اس وقت کا سوویت یونین ، ایران پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے جب کہ کمیونسٹ ملک کے اندر سرگرم تھے۔ اس کی راہ جزوی طور پر برطانیہ نے ہموار کی تھی جو ایران کی اس آئل انڈسٹری تک دوبارہ رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا، جسے مصدق حکومت نے قومی تحویل میں لے لیا تھا۔
اس بغاوت نے مصدق حکومت کو ختم کرکے رضا شاہ پہلوی کی حکومت کو مستحکم کیا۔ لیکن اس نے 1979 کے اسلامی انقلاب کا شعلہ بھی روشن کردیا۔ جس کے نتیجے میں آیت اللہ خمینی کا انقلاب آیا اوراس کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔
ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنائی کے لیے 1953 کی بغاوت ان کے خیال میں امریکہ کی جانب سے مسلسل خطرے کی نشاندہی کرتی ہے، خواہ وہ اقتصادی تعزیرات کی صورت میں ہو یا ملک بھر میں احتجاجات کی صورت میں۔
انہوں نے حال ہی میں نیم فوجی پاسداران انقلاب سے خطاب میں کہا ہے کہ واشنگٹن اسی طرح کی بغاوت کے ذریعے ملک کی دینی حکومت کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جیسے اس نے 1953 میں فوج کے ذریعے کیا تھا۔
اس کے جواب میں گارڈز کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے کہا کہ وہ امریکی افواج کو خطے سے نکال دیں گے۔ انہوں نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی ہے جب امریکہ خلیج فارس کے علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی بندوبست کر رہا ہے اور امکان یہ ہے کہ امریکی فوجی آبنائے ہرمز سے گزرنے والے جہازوں کی حفاظت کریں گے ۔ یہ وہ آ بی گزر گاہ ہے جہاں سے دنیا کا 20 فیصد تیل اپنی منزلوں پر پہنچتا ہے۔
اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے
فورم