رواں ماہ 30 اگست کو شروع ہونے والے ایشیا کپ سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم کو آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن کی صورت میں ایک ایسی خوشی ملی ہے جس سے کھلاڑیوں کا حوصلہ یقیناً بڑھے گا۔ پاکستان نے ہفتے کو افغانستان کے خلاف ون ڈے سیریز کا تیسرا میچ 59 رنز سے اپنے نام کرکے سیریز بھی تین صفر سے جیت لی اور ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرلی۔
ون ڈے انٹرنیشنل رینکنگ کے مطابق گرین شرٹس 2725 پوائنٹس کے ساتھ پہلے جب کہ سابق ورلڈ چیمپئن آسٹریلیا 2714 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
اس فہرست میں ورلڈ کپ کی میزبان بھارتی ٹیم تیسرے، گزشتہ ورلڈ کپ کی فائنلسٹ نیوزی لینڈ چوتھے، دفاعی چیمپئن انگلینڈ پانچویں نمبر پر موجود ہیں۔
کرکٹ مبصرین کے مطابق ون ڈے میں دنیا کی نمبر ون ٹیم بن جانے کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ تین میچز پر مشتمل سیریز کے دوران ہونے والی غلطیوں کو بھلا دیا جائے کیوں کہ اس وائٹ واش کرنے کے باوجود کئی شعبوں میں پاکستان ٹیم کمزور نظر آئی۔
آیے ایسی ہی کچھ خامیوں پر نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ٹیم کو ایشیا کپ اور اس کے بعد آنے والے ورلڈ کپ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماڈرن کرکٹ کو اپنانا
ایک وقت تھا جب ون ڈے کرکٹ میں 250 اور 300 رنز کے درمیان کے ٹارگٹ کو اچھا سمجھا جاتا تھا لیکن اب ماڈرن کرکٹ میں یہ ٹارگٹ صرف بالنگ کے لیے سازگار وکٹوں پر ہی اچھا لگتا ہے۔
پرانے زمانے میں اوپنرز کا کام پہلے 10 اوورز میں محتاط ہوکر کھیلنا ہوتا تھا اور آخر کے 10 اوورز میں نچلے نمبروں پر آنے والے بلے باز چوکوں اور چھکوں کی مدد سے تیزی سے اسکور آگے بڑھاتے تھے۔
انیس سو چھیانوے کے ورلڈ کپ کے بعد سے لے کر اب تک دنیا کی ہر کرکٹ ٹیم ایسے بلے بازوں سے اننگز کا آغاز کراتی ہیں جو کم گیندوں پر زیادہ رنز بنائیں۔
مبصرین کے مطابق پاور پلے میں فیلڈرز کی سرکل میں موجودگی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے پاکستانی بلے باز آج بھی پرانی طرز کی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اسی لیے سیریز کے تین میں سے دو میچوں کے پہلے 10 اوورز میں گرین شرٹس کا رن ریٹ 5 رنز فی اوور سے بھی کم رہا۔
سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان نے 10 اوورز میں 3 وکٹوں کے نقصان پر 46 رنز بنائے تھے جب کہ تیسرے میچ میں گرین شرٹس نے پاور پلے کے اختتام تک ایک وکٹ کے نقصان پر 42 رنز بنائے تھے۔ وہ بھی چار عشاریہ دو رنز کے اسٹرائیک ریٹ سے۔
اس کم اسٹرائیک ریٹ کے پیچھے جہاں اوپنرز امام الحق اور فخر زمان کا ہاتھ تھا وہیں مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرنے والے بلے باز بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔
امام الحق جنہوں نے سیریز کے بہترین کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کیا، تیسرے میچ میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 43 عشاریہ تین تین تھا۔ انہوں نے 3 میچوں میں 165 رنز بنانے کے لیے صرف 7 چوکوں کا سہارا لیا۔
دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وکٹ بلے بازی کے لیے سازگار نہیں تھی لیکن مبصرین کے خیال میں امام الحق کو اپنی بیٹنگ میں جارح مزاجی اپنانا ہوگی۔
تیسرے ہی میچ میں 69 اعشاریہ سات چھ کے تناسب سے بابر اعظم نے بیٹنگ کی تھی جو نمبر تین پر آنے والے کھلاڑی کے لیے کم قرار دی جاتی ہے۔ لیکن سب سے آہستہ بیٹنگ پہلے میچ میں نمبر پانچ کی اہم پوزیشن پر آنے والے سلمان علی آغا نے کی جنہوں نے سات رنز بنانے کے لیے 29 گیندوں کا سامنا کیا۔
اننگز کے دوران کسی بھی بلے باز کے سلو کھیلنے سے جہاں وکٹیں گرنے کا سلسلہ تھمتا ہے وہیں بعد میں آنے والے بلے بازوں پر پریشر بڑھتا ہے جس کا مظاہرہ اس سیریز کے ہر میچ میں ہوا۔
اگر پاکستان کو ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی دکھانا ہے تو انہیں اسی جارح مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کی وجہ سے انہوں نے سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز اپنے نام کی تھی۔ ورنہ بہتر بالنگ کے سامنے سلو بیٹنگ سے ٹیم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
نمبر چار پر بہترین چوائس ہیں؟
ایشیا کپ سے قبل نمبر چار پوزیشن صرف بھارتی کپتان روہت شرما کے لیے ہی درد سر نہیں بلکہ پاکستان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اسی شش و پنج میں مبتلا ہے۔ اسکواڈ میں سعود شکیل کی شمولیت سے مینجمنٹ کو اس پوزیشن کے لیے آپشن مل سکتا ہے۔ اس وقت محمد رضوان کا بدستور اس پوزیشن پر کھیل رہے ہیں۔
تین میچز کی سیریز میں انہوں نے 83 کے اسٹرائیک ریٹ سے 90 رنز تو بنائے لیکن ان کا اسکور پہلے میچ میں 21، دوسرے میں 2 اور تیسرے میں 67 رنز رہا۔
تیسرے میچ میں ان کی اننگز کو میچ وننگ تو کہا جا رہا ہے لیکن ایک موقع پر انہوں نے پہلے 25 رنز بنانے کے لیے 57 گیندوں کا سامنا کیا جسے نمبر چار بلے باز کے لیے ماڈرن کرکٹ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
ادھر افتخار احمد جیسے مستند بلے باز کو نمبر چار یا نمبر پانچ پر نہ کھلانے سے ٹیم کو کم اور سلو رنز کی صورت نقصان ہو سکتا ہے۔
پہلے ون ڈے میں انہیں نمبر چھ اور دوسر ون ڈے میں نمبر سات پر بھیجا گیا تھا۔
اسی طرح افتخار احمد نے گزشتہ سال نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی میں کھیلے جانے والے ون ڈے میچ کے دوران نمبر چھ پر بیٹنگ کرتے ہوئے 72 گیندوں پر 94 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر پاکستان کو تقریباً میچ جتوادیا تھا جس کے بعد ماہرین نے بابر اعظم کی کپتانی پر سوال اٹھائے تھے کیوں کہ ان سے پہلے محمد رضوان اور آغا سلمان کو بھیجا گیا تھا۔
یہاں بھی انہوں نے نچلے نمبروں پر آکر اننگز کو سہارا دیا اور شاید محمد رضوان کی نمبر چار پر ترقی کی وجہ سے ان کی افادیت کم ہورہی ہے۔ وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب گرین شرٹس کو ایک مستند بلے باز کی ضرورت ہے۔
شاداب خان کے ساتھ اور کس آل راؤنڈر کو کھلایا جائے؟
دنیا بھر کی ٹیموں میں آل راؤنڈرز کو اس وقت کھلایا جاتا ہے جب ٹیم کا کمبی نیشن مکمل ہو۔ لیکن پاکستان میں آل راؤنڈ کھلاڑیوں کو ہی مستند بلے باز یا بالر کے طور پر سلیکٹ کرکے ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔
سلمان علی آغا اچھے کھلاڑی ضرور ہیں لیکن سعود شکیل کی طرح مستند بلے باز نہیں۔
بہت عرصے کے بعد ٹیم کو شاداب خان کی صورت میں ایک اچھا آل راؤنڈر تو میسر ہے لیکن ان کا ساتھ دینے کے لیے مینجمنٹ متعدد کھلاڑیوں کو آزما رہی ہے۔
کبھی اسامہ میر ان کے ساتھ بالنگ کرتے ہیں تو کبھی محمد نواز، کبھی فہیم اشرف کو بطور آل راؤنڈر کھلایا جاتا ہے تو کبھی سلمان علی آغا کو بطور آف اسپنر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
تیسرے میچ میں اچھی کارکردگی دکھا کر محمد نواز اور فہیم اشرف نے سلیکٹرز کو اپنی طرف متوجہ تو کرلیا لیکن ان کا مقابلہ ہے اسامہ میر اور محمد وسیم جونیئر سے، جن کے بارے میں مبصرین کی رائے ہے کہ اگر مستقل منتخب کیا جائے تو اچھے آل راؤنڈر بن کر سامنے آسکتے ہیں۔
ورلڈ کپ سے قبل اپنے ٹیم کمبی نیشن کو فائنل کرنے کا اس سے اچھا موقع پاکستان کو نہیں ملے گا۔
فورم