پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرنے کی درخواست پر اسلام آباد ہائی نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ ممکنہ طور پر فیصلہ منگل کی صبح سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے پیر کو کیس کی سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عامر فاوق نے امید ظاہر کی کہ آج تو سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں پبلک پراسیکیوٹر کو بھی پہلے نوٹس کیا جانا ضروری ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شکایت تو الیکشن کمیشن نے دائر کی تھی ریاست نے نہیں۔ ٹرائل کورٹ میں آپ نے یہ بات نہیں کی آپ پہلی بار یہ کہہ رہے۔
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے بھارت کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ راہول گاندھی کو ایک پرائیویٹ کمپلینٹ میں دو سال کی سزا ہوئی۔ راہول گاندھی نے بھی سزا معطلی کی درخواست دائر کی جو خارج کر دی گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کم سے کم سزا ایک سال جب کہ بھارت میں کم سے کم تین سال ہے۔
عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا معطلی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے سابق وزیرِ اعظم کو اس کیس میں تین برس قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد وہ اٹک جیل میں قید ہیں۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے اور ان کی مالیت کم ظاہر کر کے اس کا بھی کچھ حصہ ادا کرنے کے بعد یہ قیمتی تحائف اپنے پاس رکھنے کا کیس تھا۔
توشہ خانہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔
'ہمارے اور بھارت کے قوانین میں بہت فرق ہے'
پیر کو دورانِ سماعت امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ سزاؤں کے حوالے سے ہمارے اور بھارت کے قوانین میں بہت فرق ہیں۔ راہول گاندھی کیس میں فیصلہ ہوا تھا کہ پبلک پراسیکیوٹر کو سننا ہے یا نہیں۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نیب کیسز میں کمپلیننٹ کو کبھی پارٹی نہیں بنایا جاتا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے قانون میں پراسیکیوٹر کی تعریف کی گئی ہے۔ نیب کیس میں اسٹیٹ آتی ہی نہیں ہے، نیب پراسیکیوٹر کو سنا جاتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ نیب کو سنے بغیر کوئی آرڈر کیا جائے۔ فوج داری کیس میں اسٹیٹ کو نوٹس ہونا ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مجسٹریٹ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ کمپلینٹ کی جانچ پڑتال کرے؟ مجسٹریٹ نے تعین کرنا ہے کہ سیشن عدالت کا ہی دائرہ اختیار بنتا ہے یا نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا۔ کرپٹ پریکٹسز کے خلاف اِس قانون کے تحت اب تک تمام شکایات سیشن عدالت میں دائر ہوئیں۔ اگر مجسٹریٹ کی اسکروٹنی والی بات مان بھی لی جائے تو ٹرائل سیشن عدالت نے ہی کرنا ہے۔
امجد پرویز نے مزید کہا کہ عدالتی دائرۂ اختیار کا اس معاملے میں ایشو ہی نہیں ہے۔ قانون کہتا ہے کہ دائرہ اختیار رکھنے والی مجاز عدالت ہی آرڈر پاس کر سکتی ہے۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق سیشن کورٹ ہی ٹرائل کی مجاز عدالت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ غلطی ہے بھی تو وہ ٹرائل کو خراب نہیں کرے گی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ کوئی ایک ایسا فیصلہ موجود نہیں جہاں کرپٹ پریکٹیسز کی شکایت مجسٹریٹ کے پاس دائر ہوئی ہو۔
بعد ازاں کیس کی سماعت میں کچھ وقت کے لیے وقفہ کیا گیا۔ وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ اب مزید کِس نکتے پر دلائل باقی ہیں؟
اس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ حقِ دفاع اور چار ماہ میں کمپلینٹ دائر کرنے کے نکات پر دلائل دینے ہیں۔ واویلا کیا جا رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے ہائی کورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی۔ میں بتاؤں گا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی نہیں کی۔
امجد پرویز نے امکان ظاہر کیا کہ ان کے دلائل آج مکمل نہیں ہو سکیں گے جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آج ہی دلائل مکمل کریں۔ سزا معطلی میں اتنی تفصیل میں نہیں جاتے۔ اگر دلائل کو اتنا طویل رکھیں تو پھر اپیل کا ہی فیصلہ ہو جائے۔
بعد ازاں انہوں نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کو پانچ سے دس منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف یہ کیس غلط ڈیکلیریشن کا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کچھ کیسز میں گواہوں کی فہرست پر اعتراض نہیں اٹھایا جاتا۔ اگر اعتراض آ جائے تو پھر عدالت نے اس اعتراض پر پہلے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ٹرائل کورٹ نے کہا کہ یہ انکم ٹیکس ریٹرنز کا کیس نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ جو گواہ دیے گئے ہیں وہ ٹیکس کنسلٹنٹ ہیں۔ اگر گواہ کیس میں التواء کے لیے پیش کیے جائیں تو عدالت کے پاس مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ ٹیکس کنسلٹنٹ اس کیس کے متعلقہ گواہ نہیں ہو سکتے۔
بعد ازاں دلائل مکمل ہونے ہر اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ منگل کی صبح ممکنہ طور پر محفوظ فیصلہ سنائے گی۔
فورم