رسائی کے لنکس

نیب ترامیم کالعدم: 'بال اب نئے چیف جسٹس کی کورٹ میں ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر قانونی ماہرین کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اعلیٰ عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعے پارلیمان کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کی ہے جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ عدالت نے آئین کے تحت فیصلہ سنایا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعے کو نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔

عدالت نے نیب ترامیم کی بیشتر شقیں کالعدم قرار دیتے ہوئے ترامیم سے قبل قومی احتساب بیورو (نیب) میں چلنے والے مقدمات بحال کر دیے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 50 کروڑ روپے کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرۂ کار سے خارج قرار دینے کی شق بھی کالعدم قرار دے دی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا کیا اثر پڑے گا؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے کی میعاد ختم ہونے کے آخری روز یہ فیصلہ سنا کر پارلیمنٹ کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے عوامی عہدے رکھنے والوں کے ریفرنس ختم کرنے کے شق تو کالعدم قرار دے دی لیکن سروس آف پاکستان یعنی فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی سے وابستہ افراد کا استثناٰ برقرار رکھا ہے۔

یاسین آزاد کے مطابق نیب ترامیم کے خلاف کیس سننے والے بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا ہے کہ عدلیہ کو پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

آگے کیا ہو گا؟

نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پاکستان کے چھ سابق وزرائے اعظم اور ایک صدر کے خلاف کیسز دوبارہ کھل جائیں گے۔ان میں آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور شوکت عزیز شامل ہیں۔

یاسین آزاد کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے تحت نیب کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ کرپشن مقدمات سات روز کے اندر کھول دے۔

اُن کے بقول اس فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی اپیل دائر ہو سکتی ہے، لیکن موجودہ قانون کے تحت وہی ججز یہ اپیل سنیں گے جنہوں نے فیصلہ سنایا ہے۔

یاسین آزاد کے بقول اس میں وقت لگے گا کیوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائر ہو رہے ہیں جب کہ ایک جج نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ لہذٰا نئے چیف جسٹس ہی اس پر بینچ بنائیں گے۔

'بال اب نئے چیف جسٹس کی کورٹ میں ہے'

ماہر قانون احمد اویس ایڈووکیٹ کہتے ہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے، لیکن آرٹیکل 188 کے تحت اس پر نظرِ ثانی کی اپیل دائر کر کی جا سکتی ہے لیکن اس کا اسکوپ بہت محدود ہو گا۔

اُن کے بقول یہ ضروری نہیں ہے کہ نظرِ ثانی کی اپیل وہی ججز سنیں جو پہلے فیصلہ سنا چکے ہیں۔ چیف جسٹس کی صوابدید ہے کہ وہ نظر ثانی کی اپیل میں کتنے رُکنی بینچ بناتے ہیں۔

احمد اویس کہتے ہیں کہ بال اب نئے چیف جسٹس کی کورٹ میں ہے کہ وہ اب صورتِ حال میں کیا کرتے ہیں کیوں کہ قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ بھی نیب ترامیم سے فائدہ اُٹھانے والوں میں شامل ہیں، ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھے گا کہ کیا اُنہیں نگراں وزیرِ اعظم ہونا چاہیے؟

نیب ترامیم کیا تھیں؟

نیب ترامیم کے تحت حراست میں لیے گئے کسی بھی شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر نیب عدالت میں پیش کرنے کا پابند تھا۔ نیب ترامیم کے تحت کئی کیسز دیگر عدالتوں کو منتقل بھی کر دیے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ سارا عمل رک جائے گا۔

نیب ترامیم میں کسی بھی ملزم کے خلاف ریفرنس یا کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نیب کو گرفتاری سے قبل ثبوت کی دستیابی یقینی بنانا ہوتی تھی۔

منظور کیے گئے بل میں ملزم کے اپیل کے حق کے لیے مدت میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ پہلے ملزم کسی بھی کیس میں 10 دن میں اپیل دائر کر سکتا تھا لیکن اب کوئی بھی ملزم اپنے خلاف دائر کیس پر ایک ماہ میں اپیل دائر کر سکے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG