اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کے روز ، ایرانی پارلیمان کے منظور کردہ ایک نئے قانون کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا، جس میں ان ایرانی شہری خواتین کے لئے سزائے قید کی مدت اور جرمانے کی رقم میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے جو کہ ایران میں سر ڈھانپنے اور پورے جسم کو چھپانے والے ڈھیلے ڈھالے اسلامی لباس کی پابندی پر سختی سے عمل نہ کریں۔
جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ہائی کمشنر کی ایک ترجمان روینا شمداثانی نے کہا کہ یہ فرمان جسے عفت اور حجاب کی ثقافت کو فروغ دےکر خاندان کی حمایت و اعانت کے قانون کا نام دیا گیا ہے، جابرانہ بھی ہے اور توہین آمیز بھی۔
انہوں نے کہا کہ ان ضوابط کے تحت ان خواتین اور لڑکیوں کو جو ڈریس کوڈ پر سختی سے عمل نہیں کریں گی ، دس سال تک کی قید کی سزادی جا سکتی ہے۔ جبکہ سابق سزا صرف دو ماہ کی قید تھی۔
جرمانے کی رقم کو جو پہلے کوئی بارہ ڈالر کے مساوی تھی، بڑھا کر آٹھ ہزار پانچ سو ڈالر کے مساوی کر دیا گیا ہے۔
یہ نیا قانون بائیس سالہ مہسا امینی کی موت کے تقریباً ایک سال بعد بنا ہے، جو ستمبر دو ہزار بائیس میں ایران کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں اسکے صرف تین دن بعد ہلاک ہو گئی تھیں جب انہیں مبینہ طور ہر حجاب نہ پہننے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کی موت پر، جو شاہدین کے کہنے کے مطابق عہدہ داروں کی جانب سے انہیں جسمانی طور پر زدو کوب کئے جانے سے ہوئی تھی، ایران بھر میں مہینوں مظاہرے ہوئے جو زیادہ تر پر امن تھے اور جو ایران کے شیعہ مذہبی رہنماؤں کے چوالیس سالہ اقتدار کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھے۔
شمدا ثانی نے جمعے کے روز رپورٹروں کو بتایا کہ مہسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر غم و غصے کے اظہار کے باوجود بد قسمتی سے بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ اور ایران میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے حالات کچھ بہتر نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حقوق انسانی کے ہائی کمشنر وولکر ٹرک کا کہنا ہے کہ ڈریس کوڈ کا ڈریکونیںن قانون، بین الا قوامی قانوں کا مضحکہ اڑاتا نظر آتا ہے اور اسے یہیں پر روک دیا جانا چاہئے۔
(اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)
فورم