اسرائیل کے انٹیلی جینس چیف نے تسلیم کیا ہے کہ حماس کے اسرائیل پر اچانک اور غیر متوقع حملے خفیہ اداروں کی ناکامی ہے اور وہ اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی فوج کے خفیہ اداروں کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ میجر جنرل اہارون ہالیفا نے ماتحت افسران کو ایک خط ارسال کیا ہے۔
منگل کو ارسال کیے گئےاس خط میں انہوں نے تسلیم کیا کہ خفیہ اداروں کے اہل کار سات اکتوبر کو غزہ سے حماس کے متوقع حملے کو روکنے میں ناکام رہے۔
انہوں نے اس خط میں اس ناکامی کی پوری ذمہ داری قبول کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والے اہارون ہالیفا کے خط کی تصدیق کے لیے فوج کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا جس پر انہوں نے خط درست ہونے کی تصدیق کی۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق میجر جنرل اہارون ہالیفا نے خط میں مزید کہا کہ گزشتہ 11 دن میں انہوں نے انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ کے جن یونٹس کا دورہ کیا اور اہل کاروں کے ہمراہ اس موضوع کو زیرِ بحث لائے کہ جنگ کا آغاز انٹیلی جینس کی ناکامی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی قیادت میں کام کرنے والے ملٹری انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ حماس کے دہشت گرد حملے کے حوالے سے متنبہ کرنے میں ناکام رہا۔
میجر جنرل اہارون ہالیفا نے کہا کہ ہم اپنی سب سے اہم ترین ذمہ داری کی ادائیگی میں کامیاب نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ناکامی کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور اب ضرورت اس کی تحقیقات کی ہے۔
جنرل اہارون کے مطابق حماس کے حملوں کی انتہائی گہرائی اور جامع انداز میں تحقیقات کی جائیں گی اور نتیجہ بھی اخذ کیا جائے گا۔ لیکن اس وقت صرف ایک ہدف ہے کہ جنگ لڑی جائے اور اس میں فتح حاصل کی جائے۔
قبل ازیں اسرائیل کی داخلی سیکیورٹی کے خفیہ ادارے ’شاباک‘ کے سربراہ رونین بار نے بھی تسلیم کیا تھا کہ وہ حماس کے حملوں کے حوالے سے متنبہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہ ان کی ناکامی ہے۔
ان سے پہلے اسرائیل کی فوج کے سربراہ ہرزی حلیفی نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیلی فورسز ملک اور س کے شہریوں کی سیکیورٹی کی ذمہ دار ہیں۔ لیکن حماس کے حملے کے وقت فورسز کو ناکامی ہوئی۔
قبل ازیں مصر کے خفیہ اداروں کے بعض حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی حکام کو پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
خبررساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق مصری انٹیلی جینس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا تھا کہ مصری حکام نے اسرائیل کو خبردار کر دیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
مصر کے عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔ البتہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ" ہم نے انہیں خبردار کر دیا تھا کہ جلد ایک بڑا دھماکہ ہونے والا ہے۔ لیکن انہوں نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تھا ۔"
خیال رہے کہ غزہ کے عسکری گروہ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر زمین، فضا اور بحری راستوں سے بیک وقت، اچانک اور غیر متوقع حملہ کیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس دن لگ بھگ 1500 عسکریت پسندوں نے متعدد علاقوں میں کئی گھنٹے گزارے تھے اور فورسز کے اہل کاروں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔
حماس کے حملے میں لگ بھگ 1400 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ جنگجو 150 کے قریب اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس نے لگ بھگ پانچ ہزار میزائل اسرائیل پر داغے تھے۔
حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کا آغاز کر دیا تھا اور حماس کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے کا دعویٰ کیا۔
اسرائیل کی غزہ پر بمباری میں اب تک ساڑھے تین ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں جب کہ ساڑھے بارہ ہزار زخمی ہوئے ہیں۔
گزشتہ 12 روز سے غزہ کی ناکہ بندی کے دوران پورے علاقے میں پانی بند ہے جب کہ ادویات، ایندھن اور خوراک کی سپلائی بھی معطل ہے۔
دنیا کے کئی ممالک انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے محفوظ کوریڈور دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ کی آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے جن میں 70 فی صد آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے۔غزہ سے انخلا یا امدادی سامان فراہم کرنے کا واحد راستہ مصر کے ساتھ سرحد پر قائم رفح گزر گاہ ہے۔ یہ گزرگاہ بھی گزشتہ 12 دن سے بند ہے۔
اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز ‘اور ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔