انہوں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا اور آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں تھے۔ یہ وہ الوداعی مصافحہ تھا جو دو انجان لوگوں کے درمیان ہورہا تھا۔ یہ ملاقات بیس منٹ کی ہوگی لیکن اس میں ہونے والی باتیں، خدشات اور دکھ ایسے بیان کیے گئے جیسے ہمارا تعلق برسوں کا ہو۔
پچاس سالہ جنت بی بی، 35 برس بعد پاکستان سے افغانستان واپس لوٹ رہی ہیں۔ جب وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آئیں تھی تو ان کی عمر 15 برس تھی۔ آج وہ اپنے آٹھ بچوں کے ہمراہ ایسے وطن جارہی ہیں جو ان کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کے لیے بھی اجنبی ہے۔
میری ملاقات جنت کے خاندان سے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے متصل ایک بس اڈے پر ہوئی۔ جہاں سے ان دنوں روزانہ کئی بسیں غیر قانونی افغان مہاجرین کو لے کر چمن بارڈر جا رہی ہیں اور یہ مہاجرین حکومتِ پاکستان کے اس حکم پر سرحد پار جا رہے ہیں کہ غیر قانونی افغان مہاجرین رضارانہ طور پر یکم نومبر تک اپنے وطن لوٹ جائیں ورنہ اس کے بعد ایسے افراد سے فارن ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔
حکومتی حکم پر افغانستان جانے والے مہاجرین کی روانگی کا عمل کافی تیز ہوچکا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں سے یہ نقل مکانی جاری ہے لیکن اس کا سب سے بڑا مرکز کراچی ہے جہاں سے روزانہ سینکڑوں خاندان افغانستان روانہ ہورہے ہیں۔
حکومت کے جاری کردہ اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں 17 لاکھ غیر قانونی افغان مہاجرین بستے ہیں جن میں سے اب تک 52 ہزار کے قریب مرد، خواتین، بچے افغانستان لوٹ چکے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک چھوڑنے کے الٹی میٹم کا مقررہ وقت ختم ہونے میں چند دن رہ گئے ہیں تو ایسے غیر قانونی افغان باشندوں کی روانگی میں بھی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔
سہراب گوٹھ کے بس اڈے پر روانگی سے قبل مردوں نے اپنے گھر کی خواتین اور بچوں کو ایک ٹوٹی پھوٹی رہائشی کمپلیکس کے کچے صحن میں بٹھا رکھا تھا۔ جس کا مقصد ان خواتین کا پردہ کرنا اور مردوں کے ہجوم سے محفوظ رکھنا بھی تھا۔ ہر جانب پھیلی مٹی پر کچھ عورتوں نے چادریں بچھا رکھی تھیں تو کچھ اسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان خاندانوں کے بچے مستقبل سے بے خبر ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔
جنت بی بی کے ساتھ سیاہ برقعوں میں ان کی تین بیٹیاں پریشانی کے عالم میں کھڑی تھیں۔ ان کا بھائی ہر کچھ دیر بعد انہیں یہ بتانے آتا کہ بس کے جانے میں ابھی کافی وقت ہے وہ بیٹھ جائیں لیکن وہ بضد تھیں کہ وہ اس مٹی پر بیٹھ کر اپنے کپڑے آلودہ نہیں کرسکتیں۔
نیلے جوڑے اور کڑھائی کی ہوئی شال اوڑھے ایک پر وقار خاتون ان لڑکیوں کو صبر کی تلقین کر رہی تھیں۔ ان کے چہرے کے نقوش اور شخصیت یہ بتانے کو کافی تھی کہ وہ ایک باہمت خاتون ہیں۔ مجھ سے کافی خواتین بات کرنے سے گریزاں تھیں اس لیے میں جنت بی بی کے پاس چل پڑی۔ اپنی طرف آتا دیکھ کر ان کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ نے میری ہمت بڑھائی کہ میں ان کی کہانی جان سکوں ۔
رسمی سلام دعا کے بعد میرا ان سے پہلا سوال یہی تھا کہ آپ کے ساتھ موجود خواتین کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہیں، کیا کوئی مسئلہ درپیش ہے؟ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا "پریشان تو ہم سب ہیں اور اس سےبڑی پریشانی تو اب اس سفر کے بعد شروع ہوگی۔ میری بیٹیاں کہہ رہی ہیں کہ ہمیں حالات نے کہاں لاکر کھڑا کردیا ہے، نہ ہم نے کبھی ایسی جگہ دیکھی نہ ایسی بری جگہ پر بیٹھ سکتے ہیں۔ سفرتو ابھی شروع ہونا ہے اور یہ گھبرا گئی ہیں، آگے تو پوری زندگی پڑی ہے جو نئے دیس میں نئے سرے سے شروع کرنی ہے ۔"
کیا آپ افغانستان نہیں جانا چاہتیں؟ میرے اس سوال پر انہوں نے کہا ، "بکری کو بھی ایک کھونٹے سے کئی روز باندھ کر رکھو تو وہ اس کی جگہ بن جاتی ہے، آپ اس کی جگہ بدلو گے تو وہ بھی بے چین رہے گی۔ ہم تو انسان ہیں ہماری پوری زندگی پاکستان میں گزر گئی میری شادی یہاں ہوئی، بچے یہاں پیدا ہوئے، یہیں پڑھے لکھے یہاں تک کہ ان کو فارسی، پشتو بھی نہیں آتی یہ اردو بولتے ہیں۔ اب ایک مہینے میں یہ فیصلہ ہوگیا کہ ہمیں اپنے وطن لوٹنا ہوگا تو یہ بچے پوچھتے ہیں کہ ماں تمہارا وطن تو افغانستان تھا کیا ہمارا وطن بھی وہی ہوگا جو ہم نے نہ کبھی دیکھا نہ اس کے بارے میں سنا؟"
کیا آپ کے پاس افغان کارڈ نہیں ؟ جنت بی بی کا جواب تھا، "جب میرا خاندان پاکستان آیا تو بھاگ دوڑ کے بعد کچھ لوگوں کو کارڈ مل گئے اس کے بعد کچھ کے پاس یہ کارڈ نہیں تھے میں اور میرے شوہر بھی ان میں سے ایک ہیں۔ جو لوگ ہمیں رخصت کرنے آئے ہیں یہ سب ہمارے ساتھ 35 برس قبل آئے تھے ان کے پاس پی او آر کارڈ ہیں یہ یہی رکیں گے۔ میں کبھی افغانستان نہ جاتی لیکن ایک ماہ کے دوران میرے دو بیٹوں کو پولیس نے تین بار حراست میں لیا۔ جنہیں ہم نے پیسے دے کر چھڑوایا میرے بیٹے ٹھیکیداری کا کام کرتے ہیں دن رات ان کا باہر آنا جانا رہتا ہے اس واقعے کے بعد میں بہت ڈر گئی ہوں اور میں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں اب افغانستان لوٹ جانا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بچے جیل میں سڑتے رہیں۔"
جنت کے مطابق، ان کا گھرکراچی کے علاقے لاسی گوٹھ میں تھا جس کی مالیت بیس لاکھ روپے تھی اس مکان کو انہوں نے اسی ہفتے پانچ لاکھ میں فروخت کیا ہے اوربیٹوں کی دو موٹر سائیکلیں پچاس ہزار میں بیچی ہیں۔ وہ اپنے ہمراہ کپڑے ، برتن اور چند ضرورت کی اشیاء لے کر جارہی ہیں۔
جنت کی بیس سالہ بیٹی خانم کراچی چھوڑنے پر رنجیدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب طالبان اقتدار میں نہیں آئے تھے اور افغانستان میں امن و خوشحالی تھی تب بھی ہمارے بڑے واپس نہیں گئے کیوں کہ ہم یہاں خوش تھے۔ یہاں میں نے میٹرک کیا میری دوستیں یہاں ہیں ہم پشتون، افغان، بلوچ سب مل کر رہتے تھے۔
خانم کے بقول، "میں نے اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر بیوٹیشن کا کورس کیا تھا کہ جب خاندان میں کوئی شادی ہو تو میں دلہن کا یا مہمانوں کامیک اپ کرسکوں، میری ایک بہن کو بیکنگ کا شوق تھا اس نے وہ سیکھی۔ اب جب ہم جارہے ہیں تو میری بہن نے کہا کہ تم سامان میں میک اپ بکس بھی رکھ لو وہاں کام آجائے گا۔ لیکن میرے بھائی نے بتایا کہ وہاں توطالبان حکومت نے سیلون بند کروادیے ہیں کوئی یہ کام ہی نہیں کرسکتا تو کوئی فائدہ نہیں یہ سب میں لے کر جاؤں۔ میں تو یہاں اتنی عورتوں اور بچوں کو ایسے جاتا دیکھ کر ابھی سے ہمت ہار رہی ہوں۔"
آٹھ سالہ روبینہ اس کمپاونڈ میں ایک چھوٹے بچے کو گود میں اٹھائے گھوم رہی تھیں نیا جوڑا پہنے ہاتھوں میں مہندی لگائے سجی سنوری یہ بچی بھی افغانستان جانے کے لیے اپنے خاندان کے ہمراہ روانگی کے لیے تیار تھی۔
میرے اس سوال پر کہ افغانستان کیوں جارہی ہو؟ اس نے کہا، ہم وہاں گھومنے جارہے ہیں وہاں بہت سے جھولے ہیں اور کھانے پینے کی چیزیں بھی ہیں۔ اماں نے بتایا ہے کہ ابا ہمیں وہاں کچھ دن رکھیں گے پھر ہم سیر کر کے واپس آجائیں گے۔ یہ سب بتاتے ہوئے روبینہ کے لہجے میں خوشی واضح تھی۔
یہ صرف روبینہ ہی نہیں آٹھ سالہ شکریہ اور دس سالہ پشمینہ کا بھی یہی حال ہے۔ شکریہ اور پشمینہ کے والد آغا محمد بیس برس بعد افغانستان لوٹ رہے ہیں وہ کراچی میں سبزی کی ریڑھی لگاتے تھے۔ ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے۔
شکریہ اور پشمینہ اپنے والد کے رکھے سامان، جس میں ریڑھی کے پہیے اور چند گٹھڑیاں شامل ہیں، ان کے پاس بیٹھی بس کا انتظار کر رہی تھیں۔
"ہم نئے وطن جارہے ہیں وہاں بہت خوبصورت پہاڑ ہیں اور سردی بھی پڑتی ہے۔ کراچی میں گرمی بہت ہے بابا کہتے ہیں کہ یہاں کی گرمی میں مشکل ہوتی ہے اس لیے ہم کچھ سال کے لیے ٹھنڈی جگہ جائیں گے۔ ہم پہلی بارکراچی سے کہیں باہر جارہے ہیں اس لیے ہم نے مہندی لگائی ہے۔" یہ کہنا ہے پشمینہ کا جو افغانستان میں اپنے مستقبل سے بے خبر ہوکر نئے سفر پر جارہی ہیں۔ ان کی بہن شکریہ اتنی بڑی بس دیکھ کر اس بات پر خوش ہیں کہ اس میں بہت سارے بچے بھی جارہے ہیں ۔
"بے وطن ہونا کیا ہوتا ہے یہ آج صحیح معنوں میں محسوس ہورہا ہے، کیا ہے ہماری زندگی؟" یہ کہنا ہے اکیس سالہ فاطمہ کا جو بہت دیر سے میری دیگر خواتین سے ہونے والی گفتگو سن رہی تھیں ۔
فاطمہ کے بقول، "ہم نے اتنی محنت سے گھر بنایا اس میں اپنی خوشی سے سامان رکھا ہر عید تہوار پر اس گھر کو سجانے کے لیے کبھی کچھ خریدتے تھے کبھی کچھ لاتے تھے۔ میں اور میری بہن تو اپنے ہی گھر میں کسی کو اپنا تکیہ بستر تک نہیں دیتے تھے آج یوں چند برتن، قالین، کپڑے اٹھا کر افغانستان جارہے ہیں۔ راتوں و رات حکومت نے فیصلہ دے دیا کہ پاکستان تمہاری جگہ نہیں بس اب افغانستان لوٹ جاؤ، ایسا آپ کے ساتھ ہو تو کیسا محسوس کریں گی؟"
فاطمہ یہ سب کہتے ہوئے رو پڑیں ان کے ساتھ کھڑی ان کی بہن کی آنکھیں بھی لال سرخ تھیں لیکن وہ اپنے ہاتھوں کو مسلنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی تھیں۔
مومن آباد کی رہائشی فاطمہ میٹرک کے بعد گھر میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھیں جو پاکستان چھوڑنے کے حکومتی فیصلے پر ناخوش ہیں۔
فاطمہ کے مطابق، "آپ یہاں سب سے پوچھیں کہ وہ کیوں واپس جارہے ہیں تو جواب ایک ہی ہوگا کہ ہمارے مردوں، بیٹوں کو پولیس لے جائے گی اس لیے جارہے ہیں کوئی ہم عورتوں کی بات نہیں کرے گا شاید ہماری رائے اہم نہیں۔ حکومت نے بھی یہی سوچا کہ اگر انہیں نکالنا ہے تو ان کے مردوں کو پکڑویہ سب مجبور ہوکر بھاگ نکلیں گے۔ کیا کسی نے سوچا کہ ایک گھر عورت بناتی ہے اس کا گھر جب ختم ہوجائے گا وہ نئے انجان ملک میں در در پھرے گی، اس کی کوئی چادر چاردیواری نہیں ہوگی تو کیا ہوگا؟"
فاطمہ نے کہا، "میں نے اپنے ماں باپ سے پوچھا کہ ہم افغانستان میں کہاں جائیں گے کوئی تو شہر ہوگا جہاں ہم نے رہنا ہے، ان کا جواب تھا کہ وہ بھی نہیں جانتے یہ فیصلہ سرحد پار کر کے ہوگا کہ کہاں جانا ہے یہ بے وطنی نہیں تو اور کیا ہے یہ توظلم ہے؟"
بسوں کی روانگی کا وقت ہوچکا تھا جنت بی بی کے بڑے بیٹے بلال نے آکر سب کو بتایا کہ وہ سب تیار ہوجائیں سفر کچھ دیر میں شروع ہوجائے گا۔ جنت کے خاندان کو رخصت کرنے کے لیے آنے والے ہر ایک سے گلے ملتے اور ڈھیروں دعائیں دیتے یہ بہت جذباتی مناظر تھے۔
میں نے بھی جنت سے آخری بار مصافحہ کیا تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ وہ جو بہت دیر سے اپنی بیٹیوں، بہو کی ہمت بڑھا رہی تھی اب میرا ہاتھ تھامے بنا کچھ کہے رو رہی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں انہیں کیسے تسلی دوں پھر میں نے ہمت کر کے اتنا ہی کہا، کاش میں آپ کے لیے کچھ کرسکتی۔
انہوں نے میرے ہاتھ کوچوما اور کہا تم میرے بچوں کی سلامتی کی دعا کرو، یہ دعا کرو کہ ہم نے جو مشکل فیصلہ کیا ہے وہ ہمیں راس آجائے وہ وطن ہمیں قبول کرے اور میرے بچوں کو وہ سب خوشیاں ملیں جو انہوں نے اس وطن میں دیکھی ہیں ۔ وہ یہ کہہ کر اٹھیں اور مجھ سے گلے ملیں اور جاتے ہوئے کہا تم نے ہمارا دکھ سنا ہم عورتوں کے دل کی بات کو جاننے کی کوشش کی اس کے لیے میں تمہیں تاعمر یاد رکھوں گی ایسے ہی جیسے پاکستان میرے دل میں ہے۔
شام ڈھلنے سے قبل چمن بارڈر جانے کے لیے کئی بسیں روانگی کے لیے تیار تھیں۔ جنت بی بی اور دیگر خواتین اپنے گھر کے مردوں کے ہمراہ بس کی سیٹیوں پر بیٹھ چکی تھیں۔ فاطمہ اور ان کی بہن کی اپنے بھائی سے کچھ سامان ساتھ رکھنے کی بحث جاری تھی یہ سامان وہ اپنے ساتھ سیٹ پر رکھنا چاہتی تھیں جب کہ بھائی اس کے لیے رضامند نہ تھا۔ میں انہیں خدا حافظ کہہ چکی تھی لیکن اس بحث کی وجہ جاننے کے لیے دوبارہ جانا پڑا۔ وہ ایک لکڑی کا ڈبہ تھا جس میں کچھ چوڑیاں اور وہ تحائف تھے جو فاطمہ اور اس کی بہن کو ان کی سہیلیوں نے الوداعی ملاقات پر دیے تھے۔
فاطمہ کی آواز میں غصہ بھی تھا اور رنج بھی ، اس کا جملہ میری سماعت میں بہت دیر تک گونجتا رہا۔ "بھائی ! ہم نے سب کچھ تویہاں چھوڑ دیا وہاں خوش رہنے کے لیے کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو۔"
فورم