بھارت میں افغان سفارت خانے نے سفارتی سرگرمیاں مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
نئی دہلی میں افغان سفارت خانے نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے 'مسلسل 'چیلنجز'، عملے کی کمی اور افغانستان کے بہترین مفاد میں سفارت خانے کو بند کیا گیا ہے۔
بھارت میں قائم افغان سفارت خانے کی بندش کا فیصلہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے دو برس بعد سامنے آیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق افغان سفارت خانے نے یہ فیصلہ سفارت خانے کا کنٹرول طالبان حکومت کے حمایتی سفارت کاروں کو دینے سے انکار کے بعد کیا ہے۔
سفارت خانے نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سابق افغان حکومت کا کوئی بھی سفارت کار بھارت میں موجود نہیں ہے اور اس وقت بھارت میں جو سفارت کار موجود ہیں وہ طالبان سے تعلق رکھتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سفارت خانے کی بندش کا فیصلہ 30 ستمبر کو سفارتی سرگرمیاں معطل کرنے کے اعلان کی روشنی میں ہی کیا گیا ہے۔
تیس ستمبر کے خط میں افغان سفارت خانے نے بھارتی حکومت سے گلہ کیا تھا کہ سن 2022 میں کابل میں اپنا مشن کھولنے کے بعد بھارت نے اشرف غنی کی حکومت سے وفاداری نبھانے والے نئی دہلی میں افغان سفارت خانے کو نظرانداز کر دیا ہے۔
افغان سفارت خانے نے بھارتی حکومت سے ویانا کنونشن کے تحت سفارت خانے کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس میں موجود اس کے پانچ لاکھ ڈالرز محفوظ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں افغان سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سفارت خانے نے آٹھ ہفتے تک انتظار کیا کہ بھارتی حکومت سفارتی عملے کے ویزوں میں توسیع اور اپنے مؤقف میں تبدیلی لائے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
واضح رہے کہ بھارت افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور نئی دہلی نے معزول افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے متعین کردہ سفیر فرید مامون زادہ اور مشن کے عملے کو ویزوں کے اجرا اور تجارتی معاملات سے نمٹنے کی اجازت دے رکھی تھی۔
لیکن سفارت خانے میں طاقت کے حصول کی مبینہ کشمکش کے باعث سابق افغان حکومت سے وفاداری نبھانے والے سفارت کاروں میں سے بعض امریکہ اور یورپ منتقل ہو گئے۔
'افغانستان کا ترنگا لہرانے دیا جائے'
افغان سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق بھارت میں سفارتی مشن کی پراپرٹریز پر افغانستان کا تین رنگوں پر مشتمل پرچم لہرانے کی اجازت دی جائے۔
اعلامیے کے مطابق بعض عناصر اس فیصلے کو سفارتی عملے کے بعض اراکین کے طالبان کی جانب جھکاؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ افغانستان کے وسیع تر مفادات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق رواں سال کے آغاز میں طالبان کی جانب سے سفارتی مشن کی سربراہی کے لیے چارج ڈی افیئرز کی تقرری کی اطلاعات کے بعد سفارت خانے میں طاقت کی کشمکش عروج پر تھی۔
رپورٹس کے مطابق افغان سفارت خانے میں اقتدار کی کشمکش اس وقت شروع ہوئی جب قادر شاہ، جو کہ 2020 سے سفارت خانے میں بطور ٹریڈ کونسلر خدمات سر انجام دے رہے تھے، نے اپریل کے آخر میں بھارتی وزارتِ خارجہ کو خط لکھا اور دعویٰ کیا کہ انہیں طالبان کی جانب سے سفارت خانے میں انچارج ڈی افیئرز کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔
تاہم افغان سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ سفارت خانہ کسی بھی بے بنیاد دعوے کی واضح طور پر تردید کرتا ہے۔
افغان سفارت خانے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ سفارت خانے نے یہ معاملہ اب بھارتی حکومت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس کے مستقبل سے متعلق کیا فیصلہ کرتا ہے۔
بھارتی حکومت نے اس پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا اور نہ ہی افغانستان میں طالبان حکومت کا کوئی مؤقف سامنے آیا ہے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعددنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا۔ لیکن طالبان حکومت کا دنیا کے کچھ ممالک میں افغان سفارت خانوں پر کنٹرول ہے جن میں پاکستان، ترکیہ، چین اور ایران شامل ہیں۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔
فورم