دبئی COP28 آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق اجلاس کی میزبانی کے لیے تیار ہے، تاہم امریکی صدر جو بائیڈن سمیت کچھ عالمی رہنماؤں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جاری اسرائیل حماس جنگ کے دوران ہونے والے ان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔
متحدہ عرب امارات میں نومبر میں بھی تپتی دھوپ ہے، کارکنوں نے دبئی ایکسپو سٹی کے مشہور الوسل گنبد کو درختوں اور دیگر سبز پودوں سے سجایا ہے جہاں جمعرات سے بات چیت شروع ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی مسلح پولیس نے ایکسپو سٹی کے تقریباً نصف علاقے پر گشت کیا جہاں اس کانفرنس کے مندوبین بحث و مباحثہ کریں گے۔ ایکسپو سٹی کے باقی علاقے میں مختلف موسمیاتی پروگراموں کی میزبانی کی جائے گی۔ ایکسپو سٹی میں ہوائی اڈے کی طرز کی سیکیورٹی اسکریننگ کا بندوبست ہے ۔
ماحولیات پر اجلاس سے قبل ہی یہاں ٹیکنالوجی اور دیگر اہم موضو عات پر مختلف سیشن ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی رہنماؤں کی دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہے کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت یا گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس (2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) تک کم کرنے کے لیے کس حد تک اقدامات کیے گئے ہیں۔
اماراتی حکام نے منگل کو کہا کہ وہ مذاکرات میں 70,000 سے زائد شرکاء کی توقع رکھتے ہیں جن میں سربراہان مملکت بھی شامل ہوں گے۔
برطانیہ کے بادشاہ چارلس مذاکرات میں شرکت کرنے والے رہنماؤں میں شامل ہوں گے۔ تاہم کچھ رہنماؤں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ اس موسمیاتی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔
ان رہنماؤں میں 81 سالہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی شامل ہیں جنہوں نے اسکاٹ لینڈ میں منعقدہ COP26 اور مصر میں ہونے والی COP27 دونوں کانفرنسوں میں شرکت کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پیر کے روز کہا کہ ’’صدر کی توجہ اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے سے جاری تنازعہ پر رہی ہے۔ وہ تھینکس گیونگ (یوم تشکر) ویک اینڈ کے دوران بھی ٹیلی فون پر مصروف رہے اور میرا خیال ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں بھی ٹیلی فون کے ذریعے اپنا کام جاری رکھیں گے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ موسمیاتی شعبے سے ایک ٹیم بھیج رہا ہےجس میں خصوصی ایلچی جان کیری، ماحولیاتی مشیر علی زیدی اور صاف توانائی کے مشیر جان پوڈیسٹا شامل ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا ایک ایسے وقت پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اس کانفرنس میں شرکت کریں گے یا نہیں جب عرب ممالک نے حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے 2020 میں اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن ان ملکوں میں عوامی سطح پر غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اس پر ردعمل کی درخواست کا تا حال جواب نہیں دیا۔ اسی دوران شام کے روزنامے ا لوطن کے مطابق صدر بشار الاسد اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے حالانکہ انھیں امارات کے رہنما محمد بن زائد النہیان کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہو چکا ہے۔ صدر کی جگہ شام کے وزیر اعظم حسین آرنوس اپنے ملکی وفد کی قیادت کریں گے۔
شام کے صدر بشارالاسد نے گزشتہ برس سے عرب علاقائی سیاست میں خود کو دوبارہ شامل کیا ہے۔ شام میں 2011 کے عرب سپرنگ کے مظاہرین کے خلاف ان کی کڑی کارروائی کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا جس نے بعد میں ایک علاقائی تنازعے کی شکل اختیار کر لی۔ شام میں ہونے والی اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ شام کی نصف آبادی بے گھر ہوئی ہے۔
اس رپورٹ کی تفصیل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے۔
فورم