"میری زندگی کے 34 سال کی جمع پونجی گھنٹوں میں راکھ ہو گئی اپنے سامنے گھر کو یوں تباہ ہوتے دیکھنا اور بے بسی محسوس کرنا میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے آج سہہ رہی ہوں یوں سمجھ لیں اس آگ نے ہماری زندگی کو جلا ڈالا ہے۔"
یہ کہنا ہے کراچی کی رہائشی حمیرا کا جو عرشی شاپنگ پلازہ کے اوپر قائم فلیٹس کی مکین اور ایک مقامی کالج کی پرنسپل ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چھ دسمبر کی شام پانچ بجے ایک مصروف ترین مارکیٹ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری مارکیٹ اور اوپر بنے فلیٹس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آگ لگنے کے نتیجے میں اب تک پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہیں جو کراچی کے سول اسپتال کے برن وارڈ میں زیرِ علاج ہیں۔ عرشی شاپنگ پلازہ میں لگ بھگ 130 دکانیں اور 70 سے زائد فلیٹس آباد تھے۔
آگ لگنے کے کچھ ہی لمحوں بعد فائر بریگیڈ پہنچ گئی لیکن جب آگ پر قابو نہ پایا جا سکا تو اسے تیسرے درجے کی آگ کا درجہ قرار دیتے ہوئے شہر بھر سے فائر بریگیڈز اور اسنارکلز بھی طلب کر لی گئی۔
یہ 15 روز میں آگ لگنے کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ 25 نومبر کو کراچی کے مصروف ترین علاقے راشد منہاس روڈ پر قائم آر جے مال میں آگ لگی تھی جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حمیرا کا کہنا تھا کہ جب یہ واقعہ ہوا وہ گھر پر موجود نہیں تھیں ان کی بہو اپنے دو کمسن بچوں کے ہمراہ فلیٹ میں موجود تھیں۔
حمیرا کے مطابق "آگ کے شعلے اتنے بلند تھے کہ بہو نے جب گیلری کا دروازہ کھولا تو وہ آگ اندر آ گئی جب اس نے فلیٹ سے نکلنے کی کوشش کی تب تک ہر جگہ دھواں بھر چکا تھا اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ فلیٹ کے ایک گارڈ نے اسے اور بچوں کو باہر نکالا میری برسوں کی محنت گھنٹوں میں راکھ ہو گئی بس۔"
"یہ سوچ کر دل کو تسلی دے رہی ہوں کہ اللہ نے ہم سب کی زندگیاں بخش دیں لیکن یوں بے گھر ہو کر بیٹھنا بہت تکلیف دہ محسوس ہو رہا ہے۔"
حمیرا بھی دیگر خواتین کے ہمراہ اپنے فلیٹس سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہیں۔ خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد گزشتہ شب سے بے سروسامانی کی حالت میں یہاں اس لیے بیٹھے ہیں کہ جب وہ اپنی جان بچا کر نکلے تو اس کے بعد آگ بجھانے کا عملہ پہنچ گیا اور پھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکم پر بلڈنگ کو سیل کر دیا گیا جس کے بعد کسی کو بھی عمارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
'ایک روز قبل ہی تنخواہ لایا تھا آگ نے کچھ بھی سمیٹنے کی مہلت نہیں دی'
نعیم احمد کے مطابق "میں کل ہی اپنی تنخواہ گھر لایا تھا اور ایک فلیٹ کی بکنگ کے لیے بینک سے 10 لاکھ کی رقم نکال کر گھر میں رکھے تھے۔ جب آگ لگی تو اس وقت کچھ بھی سمیٹنے کا موقع نہیں ملا میں نے اپنے پوتے، بیٹی، بیوی اور بہو کو فوراً گھر سے نکالا میں شاید فلیٹس سے نکلنے والا آخری شخص تھا مجھے آگ کے شعلے دیکھ کر لگا کہ شاید میں نہیں بچ پاؤں گا۔"
اُن کے بقول "مجھے نہیں لگتا کہ گھر میں رکھا سامان اور پیسہ اب بچا ہو گا۔ میں پولیس کو کہہ کہہ کر تھک چکا ہوں کہ ہر فلیٹ کے ایک رہائشی کو باری باری اوپر جانے دیا جائے تاکہ اگر کوئی دروازہ سلامت ہے تو وہ اسے ہی لاک کر آئیں کیوں کہ ہمارا سب کچھ تو گھر ہی میں ہے۔ لیکن کوئی ہمیں اندر جانے نہیں دے رہا۔"
فرحانہ بھی اسی فلیٹس کی مکین ہیں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "میری فیملی 11 برس سے اس فلیٹ میں رہ رہی ہے جب کہ نیچے میرے شوہر کی دو دکانیں ہیں جو 30 سال سے یہی ہیں۔ ایک دکان میرے بھائی کی ہے سب میٹرس کا کاروبار کرتے ہیں۔ جب آگ لگی تو نہ صرف دکانیں جل کر راکھ ہو گئیں بلکہ ہمارا فلیٹ اور باہر کھڑی موٹر سائیکلیں تک جل گئیں۔"
اُن کے بقول "ہمارا نقصان کچھ نہیں تو کروڑوں کا ہے ہم چند منٹوں کی آگ میں آج سڑک پر آ گئے ہیں اگر فائر بریگیڈ بروقت آ جاتی تو شاید آج سب لوگ یوں سڑک پر بے بس نہ بیٹھے ہوتے۔"
'کراچی کی عمارتوں میں ایمرجینسی کے متبادل راستے ہی نہیں ملتے'
کولنگ کے عمل کی نگرانی کرنے والے جائے وقوعہ پر موجود اسٹیشن آفیسر محبوب عالم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آگ لگنے کی جیسے ہی اطلاع ملی فائر بریگیڈ کو روانہ کر دیا گیا۔
محبوب عالم کے مطابق، ہمارے پاس اطلاع آنے کا وقت اور عملے کی روانگی کا وقت لکھا ہوتا ہے شام کے وقت ٹریفک زیادہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی عملہ پہنچ گیا تھا۔ لیکن جب نظر آیا کہ آگ تیسرے درجے کی ہے تو شہر بھر سے فائر بریگیڈز فوری طور پر طلب کر لی گئیں۔
اُن کے بقول آگ پر رات میں ہی قابو پا لیا گیا تھا اور کولنگ شروع کر دی گئی تھی جب ایک شخص کی لاش اندر سے ملی تو سرچنگ کا دوبارہ آغاز کیا گیا۔
فائر فائٹر کو ایسی خطرناک آگ بجھانے کے دوران کن چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ کراچی میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہو تو عمارتوں میں ایمرجینسی کے صورت میں متبادل راستے نہیں ملتے۔ کسی بھی عمارت کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہوتا جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنا کام کر سکیں۔
گنجان آبادیوں میں قائم ایسی عمارتوں میں لگنے والی آگ میں عام افراد مدد کرنے کی غرض سے کام میں مداخلت شروع کر دیتے ہیں جس سے ہمیں کافی مشکل پیش آتی ہے۔ اس عمارت میں بھی باہر نکلنے کے راستے تنگ تھے اور کچھ جگہوں پر تھے ہی نہیں شاید اسی وجہ سے مرنے والے افراد راستہ نہ ملنے کی صورت میں اندر پھنس کر رہ گئے۔
اس آگ کے نتیجے میں متاثر ہونے والے بیشتر دکان داروں کا مؤقف یکساں تھا کہ جب آگ لگی تو کہیں بھی آگ بجھانے کے آلات موجود نہیں تھے۔ فوم اور میٹرس کی دکانوں کے باوجود آگ بجھانے کے کام آنے والی ریت بھی کسی دکان دار کے پاس نہیں تھی۔
اس بات کی تصدیق مارکیٹ کے اوپر قائم فلیٹس کے مکینوں نے بھی کی کہ اوپر بھی کہیں ایسے آلات نہیں تھے۔ اب جب اس حادثے میں پانچ افراد ہلاک ہو چکے اور مالی نقصان جس کا تخمینہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان کیا جا چکا ہے جس میں آگ لگنے کی وجوہات جاننے اور نقصان کا اندازہ لگایا جائے گا۔
کراچی میں گنجان آباد علاقوں میں قائم بیشتر مارکیٹس اور رہائشی عمارتیں کسی بھی ممکنہ حادثے کے نتیجے میں لوگوں کو متبادل اور محفوظ راستے فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔
طاہر چوہدری جو اس آگ کے سبب اپنا گھر گنوا بیٹھے ہیں انھیں اس بات پر شکوہ ہے کہ حکومت شہر میں بننے والی عمارتوں کے نقشے پاس کرتے وقت ان باتوں کا خیال کیوں نہیں رکھتی کہ جب حادثہ ہو تو وہ اس شدت تک نہ پہنچ پائے؟
طاہر کے مطابق کل سے اب تک ہر کوئی آ رہا ہے اور رٹے رٹائے جملے ادا کر کے جا رہا ہے پولیس نے ہمیں ایک جگہ محدود کر رکھا ہے کہ ہم ان سے کوئی سوال نہ کرلیں۔
طاہر کے مطابق آج یہاں آگ لگی ہے کل کہیں اور حادثہ ہو جائے گا اور بات صرف افسوس اور تحقیقاتی کمیٹیوں تک محدود رہے گی اور پھر چند دنوں میں سب بھول جائیں گے۔
فورم