رسائی کے لنکس

نواز شریف کی العزیزیہ کیس میں بریت؛ نیب کی کارکردگی پر سوال کیوں اُٹھ رہے ہیں؟


پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں عدالت کی جانب سے بری کیے جاتے پر ملک کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں مقدمات کے میرٹ اور نظامِ انصاف پر ایک بار پھر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے سیاست دان وقتاً قوقتاً قومی احتساب بیورو (نیب) کے کردار اور اِس کے طریقۂ کار پر سوال اُٹھاتے رہتے ہیں اور اِس میں ترامیم کا مطابہ کرتے رہتے ہیں۔ اِسی طرح ملک کے عدالتی نظام کو بہتر کرنے اور اِس میں اصلاحات کی اکثر کوششیں تو کی گئیں ہیں لیکن بات گفت و شنید سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے عدل کے نظاموں کی درجہ بندی میں پاکستان آخری نمبروں پر ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس (ر) خلیل الرحمان رمدے سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں نظامِ عدل تو ٹھیک ہے، لیکن یہاں جھوٹے کیسز دائر کیے جاتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر بنائے جانے والے کیسز پر تو وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن معاشرے میں یہ روز ہوتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہاں بنائے جانے والے 99 فی صد کیسوں کی بنیاد جھوٹ اور ناانصافی پر مبنی ہوتی ہے۔

مبصرین کی رائے میں پاکستان کے نظامِ عدل میں بہت سی کمزوریاں ہیں جنہیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں جو تاخیر ہے اُس سے سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے کیس میں اگر اُن کی اپیل چار سال پہلے سن لی جاتی تو اِس کے اثرات مختلف ہوتے۔

کالم نویس اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی حالات میں ہر بار 'لاڈلا' تبدیل ہوتا ہے اور پاکستان میں یہ کام کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ نیب بطور آلۂ کار استعمال ہوتا ہے۔ پہلے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ مطالعہ کرنے پر پتا چلتا ہے کہ نیب کی جانب سے بنائے گئے زیادہ تر مقدمات میں کوئی جان نہیں ہوتی۔

واضح رہے کہ نیب ایسے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ نیب حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ تمام کیسز میرٹ پر بنائے جاتے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب اسٹیبلشمنت چاہ رہی ہوتی ہے کہ لائن آف ایکشن تبدیل کرنا ہے تو وہ اپنا کام کراتی ہے پھر اُس کے بعد وہ مقدمات ختم ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ رُک نہیں رہا۔

اُن کا کہنا تھا کہ آج بھی ایسے مقدمات بنائے جا رہے ہیں جس میں پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنوں کے خلاف ایک کے بعد دوسرا مقدمہ بنایا جا رہا ہے اور ایسے مقدمات میں کوئی جان نہیں ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں پاکستان میں بدقسمتی سے احتساب کا نظام سیاست کی نذر ہوتا چلا آیا ہے۔ ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان صاحب نے سابق وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ریفرنسز بھیجے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب وہ ریفرنسز عدالتِ عظمٰی (سپریم کورٹ) گئے تو جسٹس منیر اے شیخ اُن کی سماعت کر رہے تھے تو تین، چار دِن کی سماعت میں اُنہوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف تمام پانچ سے چھ ریفرنسز ختم کر دیے۔

اُن کے بقول یہ ریفرنسز مخصوص مقاصد کے تحت قائم ہوتے ہیں۔ جب قانون اور انصاف کے پلڑے میں ایسے ریفرنسز کو تولا جاتا ہے تو وہ بے اثر ہو جاتے ہیں اور ایک کاغذ کے ایک ٹکڑے کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔

جسٹس (ر) خلیل الرحمٰن رمدے کی رائے میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت اگر کوئی سرکاری افسر یا کوئی اور شخص جھوٹا مقدمہ بناتا ہے تو اس حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ اگر فوج داری مقدمات میں جھوٹا مقدمہ بنایا جائے تو پی پی سی 182 کے تحت اور دیگر دفعات کے تحت ایسے شخض کو جیل بھیجنا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِسی طرح سول قوانین کے تحت اگر جھوٹا مقدمہ بنایا جاتا ہے تو مقدمہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے مہذب ملکوں میں جہاں جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں وہاں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہیں، لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہو گا۔

مجیب الرحمان شامی کی رائے میں اگر دیکھا جائے تو نواز شریف کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اُُس کا ازالہ ہو رہا ہے، لیکن جس برق رفتاری سے اُنہیں ریلیف مل رہا ہے، اس پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جو سسٹم اُن کے در پے تھا اَب وہی سسٹم ایک دباؤ سے آزاد ہو چکا ہے اور فیصلے اُن کے حق میں ہو رہے ہیں۔

عمران، نواز مقدمات میں کتنی مماثلت ہے؟

سینئر صحافی اور کالم نویس احمد ولید کی رائے میں ماضی میں نواز شریف اور موجودہ دور میں عمران خان کے خلاف بننے والے مقدمات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اُن کے بقول کرپشن کے مقدمات پہلے بھی تھے اور اَب بھی بنائے جا رہے ہیں۔ سارا سلسلہ اُسی طرح کا چل رہا ہے۔

احمد ولید کے بقول عدالتوں میں ایسی چیزیں پیش ہی نہیں کی جا رہی جس سے ثابت ہو سکے کہ فلاں جرم ہوا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وائٹ کالر کرائم کے لیے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے، ادارے کئی کئی سال ثبوت ثبوت اکٹھے کرتے ہیں، اُس کے بعد مقدمات بنائے جاتے ہیں۔

اُن کے بقول پاکستان میں سنی سنائی باتوں پر کیس بنائے جاتے ہیں اور دورانِ تفتیش گرفتاری کی جاتی ہے۔ ایک شخص کو جیل میں رکھا جاتا ہے اور پھر تفتیش کی جاتی ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کے بقول ہر مقدمے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ایک مقدمہ ایک شخص کے خلاف مختلف ہو سکتا ہے اور وہی مقدمہ دوسرے شخص کے خلاف مختلف ہو سکتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی روایت ہے کہ جو شخص زیرِ عتاب آتا ہے اُس پر مقدمات قائم ہوتے چلے جاتے ہیں اور اُس کو سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ اِسی طرح جب اُس شخص پر دباؤ ختم ہوتا ہے اور حالات بدلتے ہیں تو اُسی شخص کو ریلیف ملنا شروع ہو جاتا ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمان رمدے کے بقول مقدمات بناتے وقت پراسیکیوشن پر کتنا دباؤ ہوتا ہے اِس بارے تو وہ کچھ نہں کہہ سکتے۔ لیکن وہ ایک بات جانتے ہیں کہ اگر بنیاد کمزور ہو تو بڑے سے بڑا محل بھی گَر جائے گا۔ اِس میں کسی کا قصور نہیں ہوتا بلکہ بنیاد رکھنے والے کا قصور ہوتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG