رسائی کے لنکس

سال 2023: کیاپاکستانی سیاست میں سب سے اہم عنصر فوج ہے؟


Pakistan Army Logo
Pakistan Army Logo

اس برس پاکستان کے سیاسی افق پر کئی تبدیلیاں سامنےآئیں اور کئی اہم سیاستدانوں نے اپنی قسمت کو بدلتے دیکھا۔ آئیندہ سال انتخابات کا سال ہے اور اس کے لئے بھی سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے ۔ لیکن مبصرین سمجھتے ہیں کہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں فوجی اسٹبلشمنٹ اب بھی ایک طاقتور عنصر ہے ۔ اور اس کے بہت سے مظاہر سامنے آئے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم بدعنوانی کے الزام میں جیل چلے گئے اور ان کی قانونی مسائل میں اضافہ ہوا۔۔ایک دوسرے وزیر اعظم ، جو بدعنوانی کے مقدمات میں سزا یافتہ ہیں ، چار سال بعد ملک واپس لوٹے اور انہوں نے اپنی قانونی پریشانیوں کو غائب ہوتے دیکھا ہے۔

'پی ٹی آئی کسی صورت الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:45 0:00

ہیومین رائٹس واچ کے سروپ اعجاز کہتے ہیں پاکستان میں سیاست اب بھی کنٹرول کی جاتی ہے۔ ’’ انتخابی سیاست، مقبولیت اور عوام کی رضا کے علاوہ اب بھی دیگر عوامل باآسانی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ‘‘

پاکستانی سیاست میں سب سے اہم عنصر فوج ہے۔

پاکستان کےسابق وزیراعظم نواز شریف، جو کچھ عرصہ پہلے تک سیاسی مداخلت کے لیے فوج پر تنقید کر رہے تھے، اب بظاہر اس طاقتور ادارے سے، تجزیہ کاروں کے مطابق، مذاکرات کے بعد پاکستان واپس لوٹے ہیں ۔

دوسری طرف سابق وزیر اعظم عمران خان، جو کبھی اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ اپنی قربت کا دعویٰ کرتے تھے ، انہوں نے اپنی برطرفی اور بڑھتی ہوئی قانونی مشکلات کے لئے انہیں ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

عمران خان نے مارچ میں اس وقت وائس آف امریکہ سے بات کی تھی جب ان کی گرفتاری کو روکنے کے لیے ان کے حامیوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں تھیں۔

ان سے پوچھا گیا تھا کہ اپنے حامیوں کے نام پیغام میں آپ نے کہا کہ ایک شخص ہے جو پاکستان کے تمام فیصلے کر رہا ہے۔ وہ شخص کون ہے؟

سابق وزیر اعظم کا جواب تھا

"وہ فوج کے سربراہ ہیں۔ وہ تمام فیصلے کرتے ہیں۔ "

عمران خان ، جوپانچ اگست سے جیل میں ہیں ، انہیں بدعنوانی اور غداری سمیت بہت سے الزامات کا سامنا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار عنبر رحیم شمسی کہتی ہیں کہ اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ جو کوئی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کسی بھی طریقے یا شکل میں چیلنج کرتا ہے، چاہے وہ فسادات کے ذریعے ہو، چاہے وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف مزاحمت کے ذریعے ہو ’اسے کبھی بے دردی سے، کبھی غیر محسوس طریقے سے سیاست سے نکال دیا جائے گا۔ ‘

پاکستانی فوج اس سال اس وقت ایک غیر معمولی حملے کی زد میں آئی جب عمران خان کے حامیوں نے 9 مئی کو اپنے رہنما کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے فوج کے دفاتر اور املاک پر دھاوا بول دیا۔

آرمی چیف اور حکومت نے سخت کارروائی کا عزم ظاہر کیا۔ جس کے بعد عمران خان کی پارٹی، تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حامیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئیں ۔

اس کے بعدکم از کم 80 سیاستدانوں نے اعلان کیا کہ وہ پی ٹی آئی یا سیاست کو مکمل طور پر چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے حیرت انگیز طور پر بالکل ایک ہی جیسی بات کی جس میں تشدد کی مذمت کی گئی تھی اور فوج کے ساتھ حمایت کا اظہار۔

عنبر رحیم شمسی کہتی ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اس حد تک آگے نہیں گئی تھی ۔ ’’لہذا، آپ نے دیکھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو حقیقت میں بتا دیا گیا کہ ان کی کوئی وقعت نہیں ۔‘‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے خوف وہراس کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کا نام اور چہرہ میڈیا سے غائب ہو چکا ہے، اور انہیں عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ عوام میں مقبول ہیں ۔

سروپ اعجاز اس بارے میں کہتے ہیں، ’’سیاسی جماعتوں کی جڑیں گہری ہوتی ہیں۔ ان کی سماجی جڑیں گہری ہوتی ہیں ۔ مجھے نہیں لگتا کہ جبر کی کوشش پارٹی کو طویل مدت کی بنیاد پرختم کر سکیں گی ۔

عمران خان کی پارٹی فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے آزادانہ طور پر مہم چلانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، اور دیگر سیاستدان اب نواز شریف پر اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ سیاسی نظام پر ووٹروں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔

سروپ اعجاز اور بہت سے سرگرم کارکنوں کے خیال میں اس اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔

"ایک ایسے انتخابی عمل پر اعتماد کم ہے جس کے نتیجے میں منصفانہ نتائج سامنے آئیں،اور اس کی بحالی ضروری ہے ۔" کہ کہنا ہے سروپ اعجاز کا۔

نومبر میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ انتخابی مبصرین کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر عوام غیر مطمئن ہیں تو انہیں کوئی فکر نہیں ۔

انتخابات میں التوا کا امکان دکھائی نہیں دیتا، نگراں وزیرِ اعظم
please wait

No media source currently available

0:00 0:14:05 0:00

"ہم اسے اگلی منتخب حکومت کے حوالے کر دیں گے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ باقی سیاسی تنازعات اور بحث چلتی ہی رہے گی۔

عسکری قیادت نے عوامی سطح پر کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کے الزامات کا جواب نہیں دیا۔

اس برس جون میں گیلپ پاکستان کے رائے عامہ کے ایک سروے میں، 64 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ فوج کا سیاست میں کچھ کردار ہونا چاہیے۔

فورم

XS
SM
MD
LG