پاکستان کے صوبے بلوچستان میں فعال بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی آر اے) کے سربراہ سرفراز بنگلزئی کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے بعد حکومت اور سیکیورٹی ادارے پراُمید ہیں کہ اس سے بلوچ علیحدگی پسند تحریک کمزور ہو گی۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے معاملات سے باخبر ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنوری 2022 میں تشکیل پانے والے نئے عسکریت پسند گروہ کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے ایک سال کے اندر ہی آپریشنز اور گرفتاریوں کے سبب کمزور کر دیا ہے۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ بی این اے کے سربراہ گلزار امام کی ترکیہ سے پراسرار گرفتاری کے بعد بی این اے شدید اختلافات کا شکار ہوئی اورر گروہ کے اہم کمانڈر اور متعدد عسکریت پسندوں کا علیحدگی پسند رہنماؤں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) میں شامل ہو جانے کے بعد بی این اے تقریباً ختم ہو کر رہ گئی تھی۔
سرفراز بنگلزئی نے 18 دسمبر کو سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں نگراں صوبائی حکومت کے وزیرِ داخلہ کیپٹن (ر) زبیر جمالی اور وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی کی موجودگی میں ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنے 70 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔
سرفراز بنگلزئی نے پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان کی مدد حاصل ہے اور وہ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور منشیات فروشی کے ساتھ ساتھ معصوم بلوچوں کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت اور افغانستان اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
سرفراز بنگلزئی کا مزید کہنا تھا کہ ’’ان کا بلوچ عسکریت پسند تنظیموں سے نظریاتی اختلاف تھا کیوں کہ کچھ تنظیمیں خواتین اور بچوں کو بھی فدائی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔‘‘
سرفراز بنگلزئی کا کہنا تھا کہ "مسلح لڑائیوں میں مارے گئے بلوچ عسکریت پسندوں کے خاندان اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں خاص کر بیرون ملک موجود خاندان دربدر ہیں۔ میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ واپس آئین ریاست بھی ان کے لیے راہ ہموار کرے۔"
سرفراز بنگلزئی کون ہیں؟
بلوچستان کے نگراں وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں 55 سالہ سرفراز بنگلزئی نے اپنا تعارف کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا تعلق کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ علاقے اسپلنجی سے ہے اور وہ 1991 سے 2009 تک محکمہ خوراک بلوچستان میں سرکاری ملازم رہے۔
بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے معاملات سے باخبر ایک بلوچ سیاسی رہنما کے مطابق سرفراز بنگلزئی نے 2009 میں حربیار مری کی سربراہی میں چلنے والی بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے بلوچ عسکریت پسندی کی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور تنظیموں کے آپس میں تنازعات کے سبب ٹوٹنے اور نئی بننے والی تنظیموں یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) اور بی این اے میں بھی شامل رہے۔ ان کے دو بیٹے اور متعدد رشتے دار بھی شورش میں مارے جا چکے ہیں۔
ان کے بقول ’’جب حربیار مری سے اختلافات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مہران مری (جس کا اصل نام زامران مری ہے) نے بی ایل اے چھوڑ کر یو بی اے کے نام سے نئی عسکریت پسند تنظیم تشکیل دی تو سرفراز بنگلزئی مہران مری کے ساتھ اس میں شامل ہوئے۔‘‘
خیال رہے کہ حربیار مری کی لندن میں 2007 میں پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے الزام میں گرفتاری کے بعد مہران مری بی ایل اے کے سربراہ بنے تھے مگر حربیار مری نے 2009 میں رہائی کے بعد مہران مری پر الزام عائد کیا کہ مہران مری نے ان کی قید کے دوران بی ایل اے کے فنڈز اور اسلحے کو چوری کر کے نئی تنظیم کے قیام کے لیے استعمال کیا۔ یوں ان اختلافات کے بدولت مہران مری کی تنظیم یو بی اے 2010 میں وجود میں آئی۔
سرفراز بنگلزئی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ یو بی اے کے اہم ترین کمانڈر تھے اور مہران مری کے ایما پر بی ایل اے کے خلاف مسلح حملوں میں ملوث رہے۔
البتہ 2021 میں جب بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے پاکستان میں موجود کمانڈروں نے یورپی ممالک میں مقیم اپنے سربراہوں کے خلاف بغاوت شروع کی تو سرفراز بنگلزئی بھی یورپ میں مقیم یو بی اے کے سربراہ مہران مری کے خلاف ہو گئے جس کی وجہ سے مہران مری نے سرفراز بنگلزئی کو تنظیم سے نکال دیا تھا۔ یوں سرفراز بنگلزئی یو بی اے کے اپنے دھڑے کے سربراہ بن گئے۔
خیال رہے کہ گلزار امام عرف شمبے نے 2018 میں یورپ میں مقیم براہمداغ بگٹی سے اختلافات کے بعد بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے ) سے اپنا دھڑا الگ کر لیا تھا۔ براہمداغ بگٹی ممتاز بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں جو بی آر اے کے ساتھ ساتھ بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی) نامی تنظیم کے بھی سربراہ ہیں۔
اسی طرح بی ایل اے کے اہم کمانڈروں اسلم بلوچ عرف اچھو اور بشیر زیب نے بھی برطانیہ میں مقیم سربراہ حربیار مری سے اپنا تعلق ختم کر کے بی ایل اے کا اپنا دھڑا تشکیل دیا تھا۔
بی این اے کیسے وجود میں آئی؟
سن 2021 کے اواخر میں یو بی اے کے ناراض کمانڈر سرفراز بنگلزئی اور براہمداغ بگٹی کی بی آر اے سے ناراض ہونے والے گلزار امام نے اپنے دھڑوں کا انضمام کر کے بی این اے کے نام سے نیا علیحدگی پسند گروہ تشکیل دیا جس نے جنوری 2022 میں لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کر کے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ انار کلی بازار میں موٹر سائیکل پر نصب بم پھٹنے کے واقعے میں تین افراد ہلاک جب کہ 26 زخمی ہو گئے تھے۔
گلزار امام بی این اے کے سربراہ جب کہ سرفراز بنگلزئی نائب سربراہ منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ مرید بلوچ کے نام سے ترجمان کے طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ دارایاں بھی قبول کرتے تھے۔
بی این اے نے تشکیل کے ساتھ ہی بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی مشترکہ محاذ کا بھی حصہ بننے کا اعلان کیا جو جولائی 2020 میں پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ براس میں بلوچ علیحدگی پسند لیڈر اللہ نذر بلوچ کی بی ایل ایف، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی سربراہی میں بی آر اے کا دھڑا اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیمیں شامل تھیں۔
گلزار امام کی گرفتاری
سن 2022 میں جون اور جولائی میں بی این اے کے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں جس میں کہا جا رہا تھا کہ اُنہیں ایران سے ترکیہ پہنچنے پر حراست میں لے کر پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا تھا جن میں ترکیہ، ایران اور چینی حکومتوں کی مدد حاصل تھی۔
البتہ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اپریل 2023 میں جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک کامیاب انٹیلی جینس آپریشن کے بعد گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کر لیا ہے۔
سرفراز بنگلزئی نے رواں سال مئی میں بلوچی ڈیجیٹل ٹی وی 'گدان' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں گلزار امام کی گرفتاری کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ ’’یورپی یونین کا رکن ہونے کی وجہ سے ترکیہ کی حکومت نے ان شرائط پر گلزار امام کو پاکستان کے حوالے کیا تھا کہ اسے آزادانہ عدالتی ٹرائل کا موقع فراہم کیے جانے کے ساتھ ساتھ خاندان سے ملنے دیا جائے گا۔
انٹرویو میں سرفراز بنگلزئی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ گلزار امام کی گرفتاری کے بعد تنظیم کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) نامی عسکریت پسندی کی حامی سیاسی جماعت کے دو رہنما ڈاکٹر نسیم اور ڈاکٹر خدا بخش بی این اے کے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری میں ملوث ہیں کیوں کہ ان کے کہنے پر گلزار امام یورپی انسانی حقوق کی تنظیم کے وفد سے ملنے ترکیہ گئے تھے۔
خیال رہے کہ بی این ایم کی جانب سے ان الزامات کے جواب میں کہا گیا تھا کہ گلزار امام کی گرفتاری ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوئی ہے اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ ملنے کے بعد مختلف گروہوں کے عسکریت پسندوں کو وئس اپ میسجز کے ذریعے ہتھیار ڈالنے کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے معاملات سے باخبر بلوچ سیاسی رہنماؤں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گلزار امام اور سرفراز بنگلزئی نے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے مقابلے میں اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر بھرتیاں کیں جس میں سیکیورٹی اداروں نے کامیابی سے اپنے مخبر بھی شامل کرا دیے۔
ان کے بقول ’’بی این اے میں موجود حکومتی مخبروں کی وجہ سے بی این اے کے تین ٹریننگ کیمپس پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ڈرون حملوں کا نشانہ بنے جس میں تنظیم کو جانی طور پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس بات کا اعتراف سرفراز بنگلزئی نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے تنظیم بنائی تو ہماری افرادی قوت 300 کے لگ بھگ تھی مگر گلزار امام کی گرفتاری کے بعد ہمارے 70 ساتھی (پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے) ڈرون حملوں میں مارے گئے۔
بی این اے اور براس
گلزار امام کی گرفتاری کے بعد بی این اے کے سربراہی سنبھالنے والے سرفراز بنگلزئی نے براس میں شامل تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔
'گدان' ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں سرفراز بنگلزئی نے کہا کہ بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب گلزار امام کے ترکیہ سفر کے بارے میں معلومات رکھنے والے بی این اے کے رکن میرجان کو تنظیم کے حوالے نہیں کر رہی ہے۔
دوسری جانب براس کی قیادت گلزار امام کی گرفتاری کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کرنے کے بجائے اتحاد میں شامل تنظیمیں بی ایل اے اور بی ایل ایف بی این اے کے عسکریت پسندوں کو اسلحہ سمیت اپنے گروہوں میں شامل کرنے لگ گئے ہیں۔
بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اندرونی معاملات سے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ گلزار امام کی گرفتاری کے بعد بی این اے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی جب کہ گروہ کے عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد گروہ کے اہم کمانڈر انور کولوائی عرف چاکر کی قیادت میں بی ایل ایف یا بی ایل اے کا حصہ بن چکی ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال فروری میں بی این اے کے رہنما سرفراز بنگلزئی نے ترجمان مرید بلوچ کے نام سے جاری اعلامیے میں اپنے گروہ کے اہم کمانڈر انور کولوائی عرف چاکر کو تنظیمی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ تین ماہ کے اندر تنظیم کے سامنے پیش نہیں ہوا تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
انہوں نے اعلامیے میں دوسری مسلح تنظیموں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انور کولوائی عرف چاکر کو تنظیمی فیصلے تک اپنی تنظیم میں پناہ نہ دیں۔
فورم