بھارت کے وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے بدھ کو ماسکو کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران روس اور بھارت نے اپنی مضبوط دوستی کا اعادہ کرتے ہوئے تجارتی اور اسٹریٹجک تعلقات کو وسعت دینے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
جے شنکر نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے بدھ کو ملاقات میں کہا کہ دونوں ممالک نے تجارت میں "ترقی" کی ہے جو اب 50 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ چیز ہے جس کی صلاحیت ابھی صرف نظر آنا شروع ہوئی ہے۔
بھارت روس کے بڑے اقتصادی شراکت داروں کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور اس نے یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد عائد ہونے والی مغربی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے روس سے خام تیل کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔
نئی دہلی نے یوکرین تنازع پر غیرجانبدارانہ مؤقف اختیار کیا ہے اور اس نے اپنے پرانے اتحادی کے ساتھ دہائیوں پرانی دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
روس کے سرکاری خبر رساں ادارے 'ٹاس' نے رپورٹ کیا کہ ولادیمیر پوٹن نے جے شنکر سے ملاقات میں کہا کہ روس اور بھارت کے دوران تجارت مسلسل دوسرے سال بڑھ رہی ہے، خاص طور پر خام تیل اور ٹیکنالوجی شعبوں کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔
اس موقع پر پوٹن نے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کو دعوت بھی دی کہ وہ ماسکو کا دورہ کریں۔
ٹاس کے مطابق پوٹن نے کہا کہ ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ تمام موجودہ معاملات پر بات سکیں اور روس بھارت تعلقات کی ترقی کے نقطۂ نظر سے متعلق بات کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ بھارت اور روس دو دہائیوں سے سالانہ سربراہی اجلاس منعقد کر رہے ہیں لیکن یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے ایک بھی سالانہ اجلاس نہیں ہوا ہے۔
نئی دہلی نے ان اجلاسوں کے انعقاد نہ کرنے کی کوئی باضابطہ وجہ نہیں دی۔ لیکن تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یہ مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھنے کے دوران بھارت کی ایک اچھی لائن پر چلنے کی کوشش ہے۔
واضح رہے کہ مودی نے جون میں واشنگٹن کا دورہ کیا تھا اور وہاں امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کو دونوں ممالک کی شراکت داری کو نئی رفتار دینے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے فیلو منوج جوشی کے مطابق بھارت نے پوٹن کے ساتھ سربراہی ملاقات سے اس لیے گریز کیا ہے کیوں کہ وہ روس کے ساتھ بہت قریب دکھنا نہیں چاہتا۔ لیکن اسی کے ساتھ ہی روس اور دنیا کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ ہم نے انہیں کسی طور پر چھوڑا نہیں ہے۔
ان کے بقول وزیرِ خارجہ کا دورۂ ماسکو اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے اب بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس تمام توجہ سے گریز کر رہا ہے کہ جو اعلیٰ سطح سربراہی اجلاس کو حاصل ہوتی ہے۔
ولادیمیر پوٹن کی جے شنکر سے ملاقات کو بھی اہم سمجھا جا رہا ہے کیوں کہ عموماً وہ دورے پر آئے ہوئے وزرائے خارجہ سے ملاقات نہیں کرتے۔
تجزیہ کار اس ملاقات کو اس بات کی نشاندہی کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں کہ روس الگ تھلگ نہیں ہے۔
منوج جوشی کہتے ہیں کہ یہ روس کے لیے بھارت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور وہ اقتصادی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہر کر رہا ہے۔ یہ ظاہر کرنا کہ نئی دہلی کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھی ہیں، روس کے لیے بھی اس مرحلے پر اہم ہے جب وہ دیوار سے لگا ہوا ہے۔
جے شنکر پانچ روزہ دورے پر ماسکو میں ہیں اور انہوں نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے بھی بدھ کو ملاقات کی ہے۔
دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔ اس دوران سرگئی لاوروف کا کہنا تھا کہ انہوں نے "جدید قسم کے ہتھیاروں کی مشترکہ پیداوار سمیت فوجی تکنیکی تعاون کے امکانات" پر تبادلۂ خیال کیا۔
واضح رہے کہ روس دہائیوں سے بھارت کو بڑے ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔ اگرچہ اس نے حالیہ برسوں میں اپنی خریداریوں کو متنوع بنانے کی کوشش کی ہے لیکن نئی دہلی اب بھی اپنے فوجی سازو سامان کا لگ بھگ دو تہائی ماسکو سے درآمد کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول بھارت دفاع اور توانائی دونوں شعبوں میں اب بھی روس پر انحصار کرتا ہے۔
جے شنکر نے روس کو بھارت کا "قابلِ قدر اور آزمودہ شراکت دار" قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جیو پولیٹیکل مفادات اور اسٹریٹجک ہم آہنگی پر مبنی ہیں۔
دونوں ممالک نے کڈن کولم نیوکلیئر پاور پلانٹ میں مستقبل میں بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کی تعمیر سے متعلق معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔ یہ پلانٹ روس کی مدد سے جنوبی بھارت میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔
اپنے دورے کے دوران جے شنکر نے روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو عالمی سیاست میں ثابت قدم قرار دیا۔
اس سے قبل منگل کو ماسکو میں رہنے والے بھارتیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عام طور پر دفاع، جوہری اور خلائی تعاون ایسے ہیں جو صرف آپ ان ممالک کے ساتھ کرتے ہیں جن پر آپ کو زیادہ بھروسہ ہو۔
فورم