رسائی کے لنکس

مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیلنے کا خطرہ، صدر بائیڈن کے لیے بڑا چیلنج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی غزہ میں زمینی جارحیت میں وسعت، سینئر ایرانی افسر کی ہلاکت کے بعد تہران کی دھمکیاں اور خطے میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کی طرف سے حملوں میں اضافے نے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے پھیلنے کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔

یہ خطرات ایسے موقع پر پنپ رہے ہیں جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن 2024 کے صدارتی انتخابات پر نظر جمائے بیٹھے ہیں اور انہیں غزہ جنگ کے معاملے پر اندرونی طور پر دباؤ کا سامنا ہے۔

امریکہ نے غزہ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد فوجی اثاثے مشرقِ وسطیٰ میں ایک 'ڈیٹرنس' یعنی خطرے کو پھیلنے سے روکنے کے طور پر منتقل کر دیے تھے۔ ساتھ ہی واشنگٹن نے تہران اور اس کی 'پراکسیوں' کو جنگ سے باہر رہنے کا کہا تھا۔ تاہم، علاقے کے ارد گرد، ایسے آثار ہیں کہ یہ تنازع پھیل رہا ہے۔

شمالی عراق کے اربیل میں امریکی فوجی اڈے پر حالیہ ڈرون حملے میں فوجیوں کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد صدر بائیڈن نے پیر کو عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ پر 'ضروری اور متناسب' حملوں کا حکم دیا تھا۔

بغداد نے امریکی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی اور ایک 'حریفانہ عمل' قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ عراق اور شام میں تقریباً 3500 امریکی فوجی براہِ راست حملوں کی زد میں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کے پاس امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملے کا جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

تہران کی دھمکی

تہران نے رواں ہفتے کے شروع میں ایرانی سپاہ پاسدارانِ انقلاب اسلامی کے سینئر مشیر سید رضی موسوی کے شام میں ہونے والے قتل کا بدلہ لینے کا عزم کیا ہے۔

اسرائیل نہ تو موسوی کی موت میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی اس نے تردید کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ موسوی لبنان اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کو اسلحہ فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

حزب اللہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے اسرائیل کی شمالی سرحد سے اپنے حملے کو تیز کر رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس نے وائس آف امریکہ کے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا اسرائیل نے موسوی کی ہلاکت کے بارے میں واشنگٹن کو پیشگی اطلاع دی تھی، یا کیا انتظامیہ کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ اب بھی روکی جا سکتی ہے۔

تنازع پھیل رہا ہے

یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا، جسے انصار اللہ بھی کہا جاتا ہے، نے منگل کے روز بحیرۂ احمر میں ایک کنٹینر جہاز پر میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ حالیہ ہفتوں میں عالمی جہاز رانی پر حملوں کے سلسلے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے جس نے واشنگٹن کو آبی گزرگاہوں پر گشت کرنے کے لیے کثیر القومی بحری افواج کا اتحاد قائم کرنے پر مجبور کیا تھا۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ایک فیلو مائیکل نائٹس کا کہنا ہے کہ جنگ کی شدت میں اضافہ ناگزیر لگتا ہے کیوں کہ ایران کے حمایت یافتہ گروہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے لیے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'ایکسز آف ری زسٹینس' میں شامل مزاحمت کرنے والے کچھ کھلاڑی، جیسے حوثی، یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے دوسرے عراقی، لبنانی یا شامی دھڑوں کے مقابلے اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے زیادہ وقف کر دیا ہے۔

مائیکل نائٹس کے مطابق "بحیرۂ احمر اصل تشویش ہے کیوں کہ حوثیوں کو روکنا زیادہ مشکل ہے، خاص طور پر اس لیے کہ کوئی بھی سعودی عرب کے امن عمل میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا۔"

سال 2022 سے سعودی عرب اور یمن میں حوثی باغی اپنی آٹھ سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے مستقل جنگ بندی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

'جنگ کے دہانے پر'

جب سے غزہ کا تنازع شروع ہوا ہے، اسرائیل لبنان کے ساتھ سرحد پار سے شدید جھڑپوں میں مصروف ہے۔

بار الان یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز کی سینئر لیکچرر الیشیوا مچلیس اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر حالیہ واقعات سے متعلق کہتے ہیں کہ "صورتِ حال واقعی جنگ کے دہانے پر ہے۔"

اب تک حزب اللہ کے حملے کے پیشِ نظر سرحدی شہروں سے دسیوں ہزار اسرائیلیوں کو نکالا جا چکا ہے۔

نیتن یاہو کی حکومت نے کہا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی کو یقینی بنانے کے لیے فوجی کارروائی کا آپشن موجود ہے۔

اسرائیل ایران جنگ کا خطرہ

مشرق وسطیٰ کونسل برائے عالمی امور کے ماہر عمر رحمان نے کہا، "دمشق میں ایرانی فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار کو قتل کرنے کا اسرائیل کا فیصلہ ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی ہے۔"

انہوں نے وی او اے کو بتایا، "ایران اب تک براہِ راست مداخلت سے باز رہا ہے، لیکن اگر اس کے کمانڈروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو اسے تحمل کی راہ پر چلنے میں دشواری ہوگی۔"

تحقیقی گروپ 'کوئنسی انسٹی ٹیوٹ فار ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ' کی ایگزیکٹو نائب صدر ٹریتا پارسی کہتی ہیں کہ اگر اس قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے تو یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ تہران کو وارننگ کے طور پر ایسا کر رہا ہے یا ایرانی ردعمل کو متحرک کرنے کے لیے جو اسرائیل کو جنگ کو بڑھانے کا بہانہ دے گا۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے تسلیم کیا کہ ان کے ملک پر "ایک کثیر محاذ جنگ" میں غزہ، مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق، یمن اور ایران سمیت "سات تھیٹروں" سے حملے کیے گئے ہیں۔

مچلس نے وی او اے کو بتایا کہ یہ "ایک ناقابل برداشت صورتِ حال" ہے جو رائے عامہ کو جنگ کے شمال میں توسیع کے حق میں موڑ رہی ہے۔

نیتن یاہو کی حکومت نے کہا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی کو یقینی بنانے کے لیے فوجی کارروائی کا آپشن میز پر موجود ہے۔

اسرائیل پر دباؤ

صدر جوبائیڈن نومبر 2024 کے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔ انتخابی رائے عامہ کے جائزوں میں زیادہ تر امریکیوں کو ان کے غزہ سے نمٹنے کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک وسیع جنگ سے بچا جائے۔

نجی طور پر، بائیڈن انتظامیہ اسرائیلیوں پر لبنان میں تحمل سے کام لینے کی تاکید کر رہی ہے۔ جہاں تک غزہ میں جنگ کا سوال ہے تو امریکہ نے اسرائیل سے جنگ کو محدود اور سرجیکل مرحلے میں منتقل کرنے کی عوامی سطح پر اپیلیں کی ہیں۔

تاہم اسرائیلی حملوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ کرسمس کے موقع سے اب تک اس کے فضائی حملوں میں سیکڑوں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثر پناہ گزین کیمپوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل میں اچانک حملوں میں 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حملہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دہائیوں سے جاری علاقائی تنازع کا سب سے زیادہ خونی واقعہ ہے۔

حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی کی زمینی و فضائی کارروائی میں غزہ کی وزارتِ صحت کے حکام کے مطابق اب تک تقریباً 21,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے پیر کو اپنی، لیکوڈ پارٹی کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق کہا کہ، "ہم آنے والے دنوں میں لڑائی کو پھیلا رہے ہیں۔"

دوسری جانب امریکہ اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائیوں کو محدود کرے۔ منگل کو ہی امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی وزیر اسٹرٹیجک امور رون ڈرمر نے ملاقات کی تھی۔

وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے وی او اے کو بتایا کہ اس ملاقات میں "حماس کے اعلیٰ اہداف پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے جنگ کے مختلف مرحلے میں منتقلی" اور عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے عملی اقدامات" پر توجہ مرکوز کی گئی۔

یہ ملاقات خطے بھر کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بائیڈن کے اعلیٰ معاونین کی مہینوں طویل سفارتی مصروفیات میں سے ایک تازہ ترین کڑی ہے، جس میں غزہ کے شہریوں کے لیے مزید امداد اور یرغمالیوں کی رہائی پر زور دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کے لیے فوجی و سفارتی مدد بھی جاری ہے۔

کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کے ماہر پارسی نے وی او اے کو بتایا کہ امریکی صدر غزہ میں جنگ بندی کے علاوہ ہر ممکن حل کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے بقول، "غزہ میں جنگ بندی سے امریکی فوجیوں پر حملے ختم ہو جائیں گے، بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں پر حملے ختم ہو جائیں گے اور ممکنہ طور پر لبنانی اسرائیلی سرحد بھی پرسکون ہو جائے گی۔"

امریکہ اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس وقت جنگ بندی حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے گی۔

وی او اے نیوز تحریر : پیٹسی ودا کوسوارا

فورم

XS
SM
MD
LG