رسائی کے لنکس

ملا شیریں کا دورۂ اسلام آباد؛ 'طالبان کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہو گا'


پاکستان کے دورے پر آئے ملا شیریں اخوند نے بدھ کو نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان کے دورے پر آئے ملا شیریں اخوند نے بدھ کو نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی تھی۔

افغان طالبان کے سپریم کمانڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے قریبی ساتھی ملا شیریں اخوند نے دورۂ پاکستان کے دوران نگراں وزیر خارجہ سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

شیریں اخوند نے اسلام آباد میں سیکیورٹی اُمور سے متعلق پاک، افغان جوائنٹ کوآرڈنیشن کونسل کے مشترکہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔

ماہرین افغان طالبان وفد کے دورۂ پاکستان کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان آئندہ ماہ عام انتخابات سے قبل سیکیورٹی کی تشویش ناک صورتِ حال پر فکر مند ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ملاقات کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی روک تھام اور دونوں ملکوں میں سیکیورٹی کی صورتِ حال پر بات ہوئی ہو گی۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے ملاقات کے حوالے سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے اہم امور بشمول امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ رابطوں کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔

'پاکستان کے لیے الیکشن سے قبل امن و امان کی صورتِ حال اہم ہے'

افغان نیوز ایجنسی 'پژواک' کے سینئر ایڈیٹر سید مدثر شاہ کے مطابق اگرچہ طالبان حکومت اسے معمول کا دورہ قرار دے رہی ہے، تاہم پاکستان کے لیے یہ نہایت اہم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے ان ملاقاتوں میں سب سے بڑا نکتہ الیکشن سے قبل ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے بارے میں ہو گا۔ تاکہ سیاسی جماعتیں بغیر کسی خوف کے اپنی انتخابی مہم چلا سکیں۔

سید مدثر شاہ کے بقول پاکستان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ شدت پسند تنظیمیں آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر خوفناک حد تک دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتی ہیں۔

ان کے بقول بدھ کو شمالی وزیرستان میں محسن داوڑ کو دو مقامات پر نشانہ بنایا گیا جب وہ الیکشن مہم کے حوالے سے اپنے حلقے میں مصروفِ عمل تھے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر بھی فائرنگ کی گئی۔

یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمۂ داخلہ نے پہلے ہی جمعیت علمائے اسلام (ف)، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں کو محتاط رہنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔


مدثر شاہ کے مطابق حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی فضا میں اضافے کے سبب لوگوں کی آمدورفت اور باہمی کاروبار میں تشویش ناک حد تک کمی آئی ہے۔

اُن کے بقول اس صورتِ حال کی وجہ سے ماضی میں متعدد بار طورخم اور چمن بارڈر ہر طرح کی آمدورفت اور کاروباری سرگرمیاں بند کر دی گئی تھیں۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں حال ہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں افغانستان کا نام لیے بغیر کہا گیا تھا کہ ہمسایہ ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی کو جدید ترین اسلحہ مل رہا ہے جو پاکستان کی سالمیت پر اثرانداز ہو رہا ہے۔

'ملا شیریں بااختیار شخصیت ہیں'

کابل میں مقیم سینئر صحافی نے نام نہ ظاہر کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عام طور پر وزیرِ خارجہ ہی دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہیں۔ لیکن ملا شیریں کا دورۂ پاکستان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک بااختیار شخصیت ہیں۔

اُن کے بقول ملا شیریں کے قندھار کے مقتدر اداروں میں اچھے روابط ہیں اور اسی طرح پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ بھی وہ عرصۂ دراز سے رابطے میں ہیں اور وہ صاحبِ اختیار بھی ہیں۔ لہذٰا پاکستان کو اُمید ہے کہ اُن کے ساتھ جو معاملات طے ہوں گے اُن پر عمل درآمد بھی ہو گا۔

'پاکستان کی توقعات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں'

کابل میں مقیم سینئر افغان صحافی اور تجزیہ کار عبدالوحید وحید کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو توقعات پاکستان طالبان حکومت سے کر رہا ہے وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ صورتِ حال میں اسلام آباد کے مطالبات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں شامل جنگجو امریکہ کے خلاف جہاد میں مل کر لڑتے رہے ہیں۔ لہذٰا افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا آسان نہیں ہو گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG