ایران کی جانب سے پاکستان کے صوبے بلوچستان کے سرحدی علاقے میں حملے کے بعد خطے میں ایک نئے تصادم کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی جوابی کارروائی سے قبل سفارتی سطح پر اس معاملے کو حل کرنا چاہیے۔ تاہم بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان ایران میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
پاکستان نے فوری طور پر اس حملے کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تہران سے سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے جب کہ اسلام آباد میں تعینات ایرانی سفیر کو بھی پاکستان نہ آنے کی ہدایت کی ہے۔ ایرانی سفیر اس وقت تہران میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کی شب ایران کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان کے ایک سرحدی گاؤں ’سبزکوہ‘ میں رہائشی علاقے کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے کی گئی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے نتیجے میں دو بچے ہلاک جب کہ تین بچیاں زخمی ہو گئیں۔
پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے حملے کے جواب میں پاکستان ہمسایہ ملک کی سرزمین استعمال کرنے والے بلوچ مسلح گروہوں کو ہدف بنا سکتا ہے۔ تاہم اسلام آباد کو فوری جوابی اقدام کے بجائے پہلے سفارتی سطح پر معاملے کو اُٹھانا چاہیے۔
واضح رہے کہ ایران اور پاکستان سیکیورٹی معاملات پر ایک دوسرے سے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایران کو پاکستان میں شدت پسند گروپ 'جنداللہ' کی مبینہ موجودگی کے بارے میں خدشات ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو بھی یہ تحفظات ہیں کہ پاکستان مخالف بلوچ عناصر بھی ایران کے کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔
اسلام آباد کے تھنک ٹینک 'صنوبر انسٹی ٹیوٹ' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ ایران نے پاکستان کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے حملہ کیا ہے جس کا مقصد اپنی عوام کو عسکری صلاحیت دکھانا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ ایران نے ان حملوں کے ذریعے عالمی طاقتوں کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ اگر اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی تو وہ سخت ردِعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ ایران نے پیر کو عراق کے نیم خود مختار علاقے اربیل میں مبینہ طور پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والے مرکز اور شام میں داعش کے ٹھکانوں کو میزائل حملوں میں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
قمر چیمہ کے بقول پاکستان کے پاس جوابی حملے کی استعداد تو موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایران میں ہدف کسے بنایا جائے؟
وہ کہتے ہیں کہ ایران کا معاملہ بھارت سے مختلف ہے جب پاکستان نے بالا کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے حملے کا فوری جواب دیا تھا۔
اُن کے بقول ایران نے پاکستان میں غیر ریاستی عناصر پر حملے کا بیانیہ بنایا ہے، لہذٰا اسلام آباد کو ہمسایہ ملک میں جوابی کارروائی سے پہلے عوامی رائے عامہ بنانا ہو گی۔
قمر چیمہ کہتے ہیں کہ بھارت بھی پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں اور افغانستان بھی یہی کہتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی بنا پر ایران نے پاکستان کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے غیر ریاستی عناصر پر حملے کا بیانیہ بنایا کیوں کہ اسے لگا کہ پاکستان فوری ردِعمل نہیں دے گا۔
قمر چیمہ کہتے ہیں کہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید متاثر ہوں گے اور عدم اعتماد بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس مسئلے کو لے کر امریکہ کی خطے میں حکمتِ عملی کا حصہ نہیں بنے کا بلکہ چاہے گا کہ اس معاملے کو دو طرفہ طریقے سے نمٹا جائے۔
'پاکستان ایران میں بلوچ مسلح گروہ کو ہدف بنا سکتا ہے'
بلوچستان کے صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ اگرچہ ایران اور پاکستان کے درمیان ماضی میں بھی سرحد پر واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن میزائل داغنے جیسا انتہائی اقدام پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایران کا یہ اقدام اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہے جو حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کرمان میں سابق جنرل قاسم سلیمانی کے مقبرے کے قریب ہونے والے دھماکے میں 103 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
شہزادہ ذوالقفار کہتے ہیں کہ پاکستان جوابی طور پر ایران کی سرحد کے اندر پاکستان مخالف مسلح گروہوں کو ہدف بنا سکتا ہے تاہم اس کے لیے مصدقہ انٹیلی جینس معلومات کے بعد ہی فیصلہ کرنا ہو گا۔
شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کوئی جذباتی قدم نہیں اُٹھائے گا بلکہ ذمے دارانہ انداز میں جواب دے گا۔
'اب پاکستان ایران مخالف ممالک کی طرف دیکھے گا'
خطے کے امور کے تجزیہ نگار طاہر خان کہتے ہیں کہ ایران کی جانب سے ہونے والے حملے پر پاکستان میں ایک طرح سے حیرت کا ماحول ہے۔
اُن کے بقول ایسے وقت میں جب پاکستان کے وزیرِ اعظم ڈیوس میں ایرانی وزیرِ خارجہ سے مل رہے تھے اور حال ہی میں ایران کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی بھی اپنا دورہ مکمل کر کے واپس گئے ہیں، ایران کا یہ اقدام حیرت کا باعث ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال اپریل میں بلوچستان میں سرحد پار ایرانی علاقے سے 'دہشت گردوں' کی فائرنگ سے چار اہلکار ہلاک ہو گئے تھے، لیکن پاکستان نے اس کے بعد ایرانی علاقے میں کوئی جوابی کارروائی نہیں کی تھی۔
اُن کے بقول اس وقت پاکستان فوج نے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران کی جانب سے یہ انتہائی اقدام پاکستان کو مجبور کرے گا کہ وہ بھی ایران مخالف کیمپ کی طرف دیکھے جب کہ خطے اور عالمی سطح پر تہران کے پہلے سے بہت سے دشمن موجود ہیں۔
فورم