پاکستان کی نگراں وفاقی کابینہ نے وزارتِ داخلہ کی سفارش پر عام انتخابات 2024 کے پُرامن انعقاد کے لیے پاکستان فوج اور سول آرمڈ فورسز کے دستوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔
یہ دستے حساس حلقوں اور پولنگ اسٹیشنز پر فرائض انجام دیں گے اور ریپڈ رسپانس فورس کے طور پر کام کریں گے۔
وزارتِ داخلہ کی سمری کے تحت دو لاکھ 77 ہزار افسران و اہلکار الیکشن سیکیورٹی پر تعینات ہوں گے۔
پاکستان میں اگرچہ عام انتخابات کے دوران فوج تعیناتی کی جاتی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ اگر فوجی اہلکار پولنگ اسٹیشنز کے اندر تعینات ہوں گے تو اس سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھے گا۔
عام انتخابات 2024 میں فوج کی تعیناتی کی سمری وزارتِ داخلہ کی طرف سے نگراں وفاقی کابینہ کو بھجوائی گئی تھی جس پر حکومت نے اب فیصلہ کرتے ہوئے فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کی منظوری دی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے اوائل میں عام انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشن پر فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے سیکریٹری داخلہ کو خط لکھا تھا۔
اسی ماہ چھ دسمبر کو نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا تھا کہ عام انتخابات کے لیے جن سیاست دانوں نے سیکیورٹی مسائل پر بات کی ہے۔ انتخابات میں سیکیورٹی کے لیے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ آیا تو غور کریں گے۔
بعد ازاں 28 دسمبر کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان فوج عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کو تعاون فراہم کرے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ پولنگ اسٹیشنوں کے احاطے میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات پر سوال اٹھائے گی۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کو ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے کنٹرول اور نگرانی میں ہونا چاہیے۔ جہاں الیکشن کے دن امن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی فورسز کی تعیناتی ضروری ہے وہیں یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ سیکیورٹی فورسز پولنگ اسٹیشنز کی حدود سے باہر ہوں۔
رضا ربانی نے کہا کہ ماضی میں جب ان دونوں عناصر کو نظر انداز کیا گیا تو اس کی وجہ سے انتخابات متنازع ہوئے۔
انتخابات کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پتن کے سربراہ سرور باری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ فوج لازمی طور پر پولنگ اسٹیشن کی حدود سے باہر ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر فوجی اہلکاروں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے اور ماضی میں جب ایسی تصاویر یا فوٹیجز سامنے آئیں جن میں فوج اہلکار پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود تھے تو اس سے انتخابات متنازعہ ہوئے اور کئی عناصر کو اس حوالے سے بات کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے سیکیورٹی کی موجودہ صورتِ حال میں فوجی اہلکاروں یا نیم فوجی دستوں کی تعیناتی ضروری ہے۔ لیکن انہیں پولنگ اسٹیشن کے باہر تعینات ہونا چاہیے تاکہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی سوال نہ اٹھ سکے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں انتخابات کے دوران فوجی اہلکار حساس پولنگ اسٹیشن پر تعینات کیے جاتے ہیں۔ عام پولنگ اسٹیشن پر پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں اور قانون کے مطابق پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس پولنگ اسٹیشن کے حوالے سے اختیارات ہوتے ہیں۔
البتہ ماضی میں چند ایسی تصاویر سامنے آئی تھیں جن میں فوجی اہلکار ووٹوں کی گنتی کے وقت اور پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود تھے جن کی وجہ سے انتخابات شفاف نہ ہونے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
الیکشن کمیشن کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پنجاب میں ایک لاکھ 69 ہزار، سندھ میں ساڑھے 18 ہزار، خیبرپختونخوا میں 56 ہزار 717، بلوچستان میں 13 ہزار 769 اور اسلام آباد میں ساڑھے چار ہزار اہلکاروں کی کمی ہے۔
الیکشن کمیشن نے حکومت سے سیکیورٹی کے لیے انتظامات کرنے کی درخواست کی تھی۔
انتخابات کے لیے حتمی پولنگ اسکیم بھی تیار ہوگئی ہے جس کے مطابق ملک بھر میں 92 ہزار 353 پولنگ اسٹیشن قائم ہوں گے۔
اسکیم کے تحت پنجاب میں 15 ہزار، خیبرپختوںخوا میں چھ ہزار 180، سندھ میں چھ ہزار 576، بلوچستان میں دو ہزار 68 پولنگ اسٹیشن حساس قرار دیے گئے ہیں۔
انتخابات میں فوج کی تعیناتی کے حوالے سے اب تک پاکستان فوج کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ 28 دسمبر کو ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں پاکستان فوج نے حکومت کو عام انتخابات کے لیے ہر ممکن مدد فراہمی کا کہا تھا۔
فورم