اردن میں عسکریت پسندوں کے ڈرون حملے میں امریکہ کا ایک فوجی اڈہ 'ٹاور 22' نشانہ بنا ہے جس میں تین اہلکار ہلاک اور 34 زخمی ہوئے ہیں۔
اردن میں قائم اس امریکی فوجی اڈے کے بارے میں عوامی سطح پر بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ البتہ 'ٹاور 22' اردن کے انتہائی شمال مغرب میں شام اور عراق کی سرحد کے بالکل قریب واقع ہے۔
یہ مقام اسٹرٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں یہاں سے تین ممالک اردن، عراق اور شام کے حالات پر نظر رکھنا اور ان علاقوں میں مدد فراہم کرنا انتہائی آسان ہے۔
'ٹاور 22' پر اتوار کو ہونے والے ڈرون حملے کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈں نے بھرپور جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کی غزہ میں جاری جنگ کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں ملیشیا گروپوں نے گزشتہ کئی ماہ میں امریکی فورسز پر حملے کیے ہیں۔ لیکن ایسا پہلی بار ہے کہ کسی حملے میں امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
'ٹاور 22' پر کتنے امریکی اہلکار موجود ہوتے ہیں؟
اردن میں موجود امریکی اڈے پر فوج اور فضائیہ کے دستے تعینات ہیں۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی کے لگ بھگ 350 اہلکار 'ٹاور 22' پر موجود ہیں۔
ٹاور 22 کے لیے اس مقام کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
اردن میں جس مقام پر 'ٹاور 22' قائم ہے وہاں سے قریب ہی سرحد پار شام کے صوبے حمس میں امریکہ کا ’التنف گیریژن‘ ہے۔
شام میں التنف کے علاقے میں قائم امریکہ کے اس فوجی اڈے میں اہلکاروں کی رہائش کے لیے متعدد عمارتیں قائم ہیں۔
شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف لڑائی میں التنف کے علاقے نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی فورسز کے لیے یہاں سے ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
'ٹاور 22' شام میں التنف کے امریکی اڈے کے قریب واقع ہے۔ ٹاور 22 سے شام میں امریکی فوج کی معاونت کرنا بھی آسان ہے جب کہ اس فوجی اڈے کے ذریعے خطے میں ایران کی حامی عسکری تنظیموں اور شدت پسند گروہ داعش کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے۔
امریکی فوج اردن میں کیوں موجود ہے؟
امریکہ جن ممالک کو سب سے زیادہ فوجی مالی امداد دیتا ہے ان میں اردن بھی شامل ہے۔
اردن کی فوج کو تربیت دینے کے لیے سیکڑوں امریکی اہلکار موجود ہیں۔ جب کہ اردن امریکہ کے ان چند اتحادی ممالک میں شامل ہے جس کی فوج کی سال بھر امریکی فورسز کے ساتھ وسیع پیمانے پر تربیتی مشقیں جاری رہتی ہیں۔
سال 2011 میں جب شام میں تنازع اور پھر خانہ جنگی شروع ہوئی تھی تو امریکہ نے اردن کی وسیع پیمانے پر مالی مدد کی تھی تاکہ وہ سرحد پر نگرانی کا ایک مربوط نظام بنا سکے۔ اس سرحدی نگرانی کے نظام کو ’بارڈر سیکیورٹی پروگرام‘ کا نام دیا گیا تھا۔
بارڈر سیکیورٹی پروگرام بنانے کا مقصد شام اور عراق سے اردن میں در اندازی پر مؤثر انداز میں نظر رکھنا تھا۔
کئی امور اب بھی نامعلوم
یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ امریکہ نے 'ٹاور 22' نامی فوجی اڈے پر کس قسم کے ہتھیار، گولہ بارود اور جنگی ساز و سامان رکھا ہوا ہے۔
اس حوالے سے بھی معلومات موجود نہیں کہ اس اڈے کے فضائی دفاع کے لیے کون سا نظام استعمال کیا جا رہا ہے جس نے مؤثر انداز میں کام نہیں کیا اور یہ فوجی اڈہ ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔