گزشتہ ہفتے جنوبی شام کے علاقے میں واقع التنف فوجی چوکی پر ہونے والے ڈرون حملے میں ایران ملوث تھا۔ یہ بات دو امریکی اہلکاروں نے وائس آف امریکہ کو بتائی ہے۔
حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے میں ایرانی ڈرونز استعمال کیے گئے۔ لیکن انھیں ایران سے لانچ نہیں کیاگیا۔ ڈرونز دھماکہ خیز مواد سے لیس تھے، جس کے نتیجے میں عمارتوں کو نقصان پہنچا، لیکن کوئی ہلاک و زخمی نہیں ہوا۔
ایک اہلکار کے مطابق حملے میں پانچ ڈرونز شامل تھے۔
امریکی اور بین الاقوامی فوجیں التنف کے مقام پر شامیوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے جنگ جوؤں کے حملوں کا مقاملہ کیسے کیا جائے۔
یہ فوجی اڈہ ایک مرکزی سڑک پر واقع ہے جہاں سے عراق کے دارالحکومت بغداد اور شامی دارالحکومت دمشق کو راستہ جاتا ہے؛ اردن، عراق اور شام کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ امریکی اہلکاروں نے بتایا کہ عین ممکن ہے کہ ایران اس راستے کو تہران سے بحیرہ روم تک رسائی کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہو۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر آیا اس حملے کا ذمہ دار کون ہے، پینٹاگان کے پریس سیکریٹری جان کربی نے واضح جواب دینے سے احتراز کیا۔
پیر کے دن پینٹاگان پریس کو بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ''ماضی میں اس کے قسم کے حملے شیعہ ملیشیا گروہوں کی کارستانی رہی ہے، جن کے لیے ہمیں پتا ہے کہ ان کی حمایت اور پشت پناہی ایران کرتا ہے، لیکن میں ان حقائق سے متعلق زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا''۔
انھوں نے مزید کہا کہ ''یہ ایک پیچیدہ امر ہے۔ یہ عمل جان بوجھ کر کیا گیا''۔
دریں اثنا، بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے میں ایران کی ہچکچاہٹ کے حوالے سے بین الاقوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے''۔
امریکی خصوصی ایلچی برائے ایران، رابرٹ ملی نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھی متبادل سفارتی راستوں پر غور کر رہے ہیں، لیکن مستقبل کے آپشنز کے حوالے سے کسی فیصلے کا انحصار ایران کے اپنے اقدامات پر ہوگا۔
انریکی افواج کے خلاف آخری ایرانی حملہ جنوری 2020ء میں کیا گیا تھا، جب ایران نے عراق میں الاسد ایئر بیس پر متعدد میزائل داغے تھے۔ ان حملوں میں امریکی فوج کا کوئی اہلکار ہلاک نہیں ہوا تھا، لیکن دھماکوں کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد کو دماغی نوعیت کی چوٹیں لگی تھیں۔
جنوری 2020ء کا یہ حملہ اسی ماہ کے اوائل میں بغداد ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی ڈرون حملے کے جواب میں کیا گیا تھا، جس میں قاسم سلیمانی ہلاک ہوئے تھے، جو ایرانی قدس فورس کے کمانڈر تھے جن کا کام عراق میں مختلف میلشیاؤں کی کارروائیوں کی نگرانی کرنا تھا۔ اسی حملے میں ابو مہدی المہندس بھی ہلاک ہوئے تھے، جو ایرانی حمایت یافتہ گروپ، کتائب حزب اللہ کے عراق کے بانی تھے۔
الاسد عسکری اڈے پر حملے کے جواب میں، دو ماہ بعد امریکی جیٹ طیاروں نے عراق کے پانچ ٹھکانوں پر کارروائی کی تھی، جن کا ہدف کتائب حزب اللہ کے اسلحے کے ذخیرے تھے۔