امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن مشرقِ وسطیٰ کے دورے کے آغاز پر فلسطینیوں امید ظاہر کر رہے ہیں کہ غزہ کے سرحدی شہر رفح پر اسرائیلی حملے سے پہلے جنگ بندی ہو جائے گی جہاں علاقے کی نصف آبادی پناہ لیے ہوئے ہے۔
اینٹنی بلنکن نے دورے کے پہلے مرحلے میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا واشنگٹن کی طرف سے جنگ بندی کے پیشکش کے بعد یہ پہلا دورہ ہے۔ امریکی پیشکش میں اسرائیلی رائے بھی شامل کی گئی ہے۔ وہ منگل کو مصر اور قطر کے رہنماوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ مصر اور قطر نے جنگ بندی کی تجویز کو تیار کرنے میں امریکہ کی معاونت کی ہے۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ بلنکن اور سعودی ولی عہد نے بحران کےخاتمے اور علاقائی ہم آہنگی پر تبادلۂ خیال کیا۔
ترجمان کا ایک بیان میں مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ نے غزہ میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور تنازع پھیلنے سے روکنے کی اہمیت پر زور دیا۔
جنگ بندی کی پیشکش گزشتہ ہفتے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس تک پہنچائی گئی تھیں۔
اس پیشکش پر حماس کے جواب آنا ابھی باقی ہے۔ حماس نے گزشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا جس کے بعد جنگ شروع ہوئی تھی۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ مزید ضمانتیں چاہتی ہے کہ جنگ بندی سے چار ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ایک سینئر امریکی اہلکار نے سعودی دارالحکومت کی پرواز کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ کہنا ناممکن ہے کہ ہمیں کوئی پیش رفت ملے گی یا نہیں۔ اس وقت گیند حماس کے کورٹ میں ہے۔"
بلنکن کے دورے کا مقصد امریکی منصوبوں کی حمایت حاصل کرنا ہے جو جنگ بندی کے بعد عمل میں آئیں گے جن میں غزہ کی تعمیر نو اور اس کا انتظام چلانا اور بالآخر ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور عرب ممالک کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شامل ہے-
خیال رہے کہ اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو مسترد کر دیا ہے ۔
دوسری طرف خطے میں ایران نواز مسلح گروہوں کے خلاف امریکی فضائی حملوں کے بعد واشنگٹن مشرقِ وسطیٰ میں کسی اور جگہ مزید کشیدگی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سفارتی کوششوں کی قیادت کی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر، مزید ٹھوس اقدامات پر اصرار کرنے کے بجائے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اسرائیل کی جانب سے سیاسی عزم کے اعلانیے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
جنگ بندی کی پیشکش، فلسطینی کیا چاہتے ہیں؟
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ جنگ بندی کی تجویز میں کم از کم 40 دن کی جنگ بندی کا تصور دیا گیا۔
اس دوران حماس اسرائیل پر حملے میں یرغمال بنائے گئے باقی ماندہ یرغمالیوں میں سے شہریوں کو آزاد کر دیں گے۔
اس کے بعد فوجیوں اور ہلاک ہونے والے یرغمالوں کی لاشوں کے حوالے کرنے کے مراحل ہوں گے۔
یاد رہے کہ اب تک کی واحد جنگ بندی نومبر میں ایک ہفتہ تک جاری رہی تھی۔
دوسری طرف فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
غزہ کے علاقے دیر البلاح میں اقوامِ متحدہ کے ایک اسکول میں میسجنگ ایپ کے ذریعے رابطہ کرنے والے چار بچوں کے والد 35 سالہ یامین حماد کا کہنا تھا کہ وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے گھر واپس جا سکیں۔
ان کے بقول اس مرحلے پر ہم یہی چاہتے ہیں۔
وسطی غزہ کا یہ علاقہ ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں اسرائیلی ٹینکوں نے ابھی پیش قدمی نہیں کی تھی جب کہ غزہ کے شمالی علاقوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے ہزاروں بے گھر خاندانوں سے یہ علاقہ بھرا ہوا ہے۔
یامین حماد کہتے ہیں " ہم صرف چھوٹے سے ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتے ہیں اور امید کی تلاش میں انٹرنیٹ دیکھتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ بلنکن نیتن یاہو کو بتا دیں گے کہ بہت ہوگیا اور ہمیں امید ہے کہ ہمارے دھڑے ہمارے لوگوں کے بہترین مفاد میں فیصلہ کریں گے۔"
اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی لگ بھگ 85 فی صد آباد گھر بار چھوڑ چکی ہے اور جنگ زدہ علاقے میں فلسطینیوں کو خوراک، پانی، پناہ گاہوں اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
اسرائیل کا مکمل فتح پر زور
اسرائیل نے مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے شہر رفح پر نئے زمینی حملے کی دھمکی دی ہے جہاں غزہ کے 23 لاکھ افراد میں سے نصف سے زیادہ اب عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے پیر کو فوج سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیلی فورسز نے حماس کی نصف سے زیادہ لڑنے والی فوج کو ہلاک یا غیر فعال کر دیا ہے اور یہ کارروائی "مکمل فتح" تک جاری رہے گی۔
حماس کے سینئر عہدیدار سامی ابو زہری نے مسلسل مزاحمت کے پیشِ نظر نیتن یاہو کے بیان کو فتح کی خام خیال قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے پیر کو غزہ میں درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔
اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ اس کی گزشتہ روز کی کارروائیوں میں جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں فضائی حملے اور زمینی لڑائی کے علاوہ شمالی اور وسطی غزہ میں حملے شامل تھے۔
حماس کے زیرِ کنٹرول غزہ کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ پیر تک رات گئے اسرائیلی حملوں میں مزید 128 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
اس خبر میں شامل زیادہ تر معلومات کو ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔