رسائی کے لنکس

اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے طالبان کی شرائط ناقابل قبول تھیں:گوتریس


 دوحہ قطر میں افغانستان پر ہونے والے اجلاس سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس خطاب کر رہے ہیں ، فوٹو اے پی 19 فروری 2024
دوحہ قطر میں افغانستان پر ہونے والے اجلاس سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس خطاب کر رہے ہیں ، فوٹو اے پی 19 فروری 2024

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینتونیو گوتریس نے پیر کے روز کہا کہ طالبان نے افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اجلاس میں شرکت کے لیے ناقابل قبول شرائط پیش کیں۔

قطر میں دو روزہ اجلاس کے اختتام پر گوتریس نے کہا کہ طالبان کے مطالبات میں دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات سے سول سوسائٹی کے ارکان کا اخراج اور ایسا برتاؤ شامل تھا جو طالبان کو باضابطہ طور پر ملک کے جائز حکمران کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔

طالبان نے 2021 میں اس وقت اقتدار پر قبضہ کیا تھا جب امریکی اور نیٹو افواج دو دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان سے واپس چلی گئی تھیں۔ اب تک کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر طالبان کی عائد کردہ پابندیاں برقرار رہتے ہوئے تسلیم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

دوحہ میں دو روزہ اجلاس میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور خصوصی سفیر اکٹھے ہوئے۔ لیکن طالبان نے شرکت نہیں کی کیونکہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تھے۔

گوتریس نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ’’مجھے (طالبان کی طرف سے) ایک خط موصول ہوا جس میں اس میٹنگ میں شرکت کے لیے کچھ شرائط تھیں جو قابل قبول نہیں تھیں۔‘‘

اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل اینتونیو گوتریس دوحہ قطر میں افغانستان پر ایک کانفرنس میں صحافیوں سے خطاب کررہے ہیں، فوٹو اے پی، 19 فروری 2024
اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل اینتونیو گوتریس دوحہ قطر میں افغانستان پر ایک کانفرنس میں صحافیوں سے خطاب کررہے ہیں، فوٹو اے پی، 19 فروری 2024

انہوں نے کہا کہ "ان مطالبات میں افغان معاشرے کے دوسرے نمائندوں سے بات کرنے کے ہمارے حق سے انکار اور ایک ایسے طرز عمل کا مطالبہ کیا گیا تھا جو بڑی حد تک انہیں تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا ۔"

اگرچہ گوتریس نے طالبان کی عدم موجودگی سے اس عمل کو کوئی نقصان پہنچنے کی تردید کی تاہم کہا کہ ان کے ساتھ میٹنگ کے نتائج پر بات کرنا مفید ہوتا۔

ان کا مزید کہنا تھا ،"آج ایسا نہیں ہوا۔ مستقبل قریب میں ایسا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ ہم طالبان کو شرکت کو ممکن بنانے کے لیے کوئی حل تلاش کر لیں گے۔‘

اے پی کے مطابق طالبان عہدیدار فوری طور پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

بین الاقوامی برادری اور طالبان کے درمیان تنازع کی سب سے بڑی وجہ خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیاں ہیں۔ طالبان کا اصرار ہے کہ پابندیاں ان کا داخلی معاملہ ہیں اور وہ تنقید کو بیرونی مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔

تاہم گوتریس نے کہا کہ میٹنگ کے شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ پابندیوں کو منسوخ کرنا ضروری ہے۔

دوسرا نکتہ اقوام متحدہ کے کسی خصوصی ایلچی کی تعیناتی ہے جس کی طالبان مخالفت کرتے ہیں۔

گوتریس نے کہا کہ اس بارے میں طالبان کے ساتھ واضح مشاورت کی ضرورت ہے کہ سفیر کا کردار کیا ہو گا اور وہ کون ہو سکتا ہے،تاکہ ان کے نقطہ نظر سے اس تجویز کو قابل عمل بنا یا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ کسی مشاورت کا حصہ بننا طالبان کے اپنے مفاد میں ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان حکام کی جانب سے ہر نیا حکم جاری ہونے پر افغان خواتین کو گرفتاری، ہراسانی اور مزید تعزیرات کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

افغان خواتین کو درپیش صورت حال کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق نفاذ قانون کے اقدامات سے عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان کے لیے بیرون خانہ سرگرمیوں میں شرکت مزید مشکل ہو گئی ہے۔ طالبان حکام نے اب تک 50 سے زیادہ ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں جن سے خواتین کے حقوق اور وقار پر براہ راست زد پڑتی ہے۔

اس جائزے کا اہتمام یو این ویمن، عالمی ادارہ مہاجرین (آئی او ایم) اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) نے کیا تھا جس میں 745 افغان خواتین سے بات کی گئی تھی۔

جائزے میں شرکت کرنے والی بعض خواتین نے کہا کہ اگر عالمی برادری افغانستان کے لیے انسانی امداد کو خواتین کی زندگی بہتر بنانے اور انہیں مواقع کی فراہمی سے مشروط کر دے تو حالات میں بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG