قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کی صورتِ حال سے متعلق اتوار سے شروع ہونے والے دو روزہ اجلاس کی میزبانی اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کر رہے ہیں۔
کانفرنس میں رکن ممالک اور علاقائی تنظیموں کے خصوصی نمائندگان برائے افغانستان، امن و امان اور علاقائی استحکام کے حوالے سے شرکت کر رہے ہیں۔
افغان خبر رساں ادارے ’طلوع نیوز‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان خواتین کے مؤقف کو کھل کر سنا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مندوبین طالبان، افغان سول سوسائٹی کے ارکان اور خواتین کے گروپوں سے ملاقات کریں گے۔
ان کے بقول افغانستان سے متعلق ہماری تشویش اور کام کی مرکزی بات یہ ہے کہ ہم خواتین اور لڑکیوں کے وقار اور ان کے انسانی حقوق کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں طالبان کی عبوری وزارتِ خارجہ نے اعلامیے میں کانفرنس کے انعقاد کو خوش آئیند قرار دیا لیکن واضح کیا کہ افغانستان کی جانب سے افغان طالبان کو واحد فریق تسلیم کیا جائے۔ ایسا نہ ہونے کے سبب طالبام کانفرنس میں شرکت کو مفید نہیں سمجھتے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ دوحہ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی آصف درانی کریں گے۔
اس حوالے سے پہلا اجلاس گزشتہ سال مئی میں دوحہ میں ہوا تھا جس میں طالبان حکومت کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ تاہم اس مرتبہ طالبان حکومت کو بھی دعوت دی گئی ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن امریکہ سمیت کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب طالبان حکومت کو مغربی ممالک کی جانب سے ملک میں خواتین کی تعلیم، روزگار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
مبصرین اتوار کو شروع ہونے والی اس کانفرنس کو اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے بھی کم عرصہ میں افغانستان کے حوالے سے دو بڑی کانفرنسیں جس کی سربراہی اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بذات خود کر رہے ہیں۔ ایک واضح پیغام ہے کہ عالمی برادری افغان عوام کو ہرگز طالبان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہتی۔
ان کے بقول اگرچہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کے بعد عالمی برادری کے ترجیحات یقیناً بٹ گئی ہیں۔ لیکن اس قسم کے اجلاسوں کے انعقاد کے ذریعے طالبان حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھیں گے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی کا سلسلہ لمبے عرصہ تک برقرار نہیں رہے گا۔
یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں لڑکیاں صرف چھٹی جماعت تک ہی اسکولوں میں تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں لیکن فی الحال انتظامی بنیادوں پر انہوں نے لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند کر رکھے ہیں۔
سمیع یوسف زئی کے بقول عالمی برادری کی طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ادوار کافی مفید رہے ہیں۔ اب عالمی برادری بھی اس نتیجے پر پہنچی چکی ہے کہ طالبان حکومت کے چند سرکردہ رہنما بشمول طالبان سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ کے علاوہ باقی تمام افراد افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حقوق کے خلاف نہیں ہیں۔
افغان امور کے ماہر کے مطابق اس حوالے سے عالمی برادری کی اسکروٹنی تقریباََ مکمل ہو گئی ہے اور اگلے مرحلے میں وہ ممکنہ طور پر قندہار اور کابل کے لیے نئی پالیسی ترتیب دے سکتے ہیں۔
اس کانفرنس کا ایک اہم نقطہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے افغانستان کے لیے ممکنہ طور پر نمائندہ خصوصی کی تقرری بھی ہے جو کہ عالمی برادری کے معاملات طالبان حکومت کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب طالبان حکومت اس قسم کی کسی بھی تقرری کے خلاف ہیں۔
دوحہ کانفرنس کے حوالے سے طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اگر تمام مسائل پر اعلی سطحی بامعنی بات چیت کی جائے تو مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
طالبان حکومت کے نائب ترجمان حافظ ضیا احمد نے سوشل میڈیا پر حال ہی میں وزیر خارجہ امیر خان متقی اور روسی سفیر کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ اگر طالبان کے مؤقف کی تائید نہیں کی جاتی تو پھر اس کانفرنس سے مطلوبہ نتائج اخذ نہیں کئے جا سکتے ہیں۔
سابق افغان رکن پارلیمنٹ شینکئی کڑوخیل دوحہ مذاکرات کو ایک مثبت سرگرمی قرار دیتی ہیں۔
ان کے مطابق موجودہ حالات میں افغانستان کے زمینی حقائق سے متعلق بہت کم معلومات سامنے آرہی ہیں اس لیے اس قسم کی کانفرسوں کے ذریعے عالمی برادری پر وہاں ہونے والی صورتِ حال واضح ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ بدقسمتی سے اس قسم کی کانفرنسوں میں ہر کوئی اپنے مفادات کو تقویت دینے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ لیکن وہ چاہتی ہیں کہ فیصلے ایسے ہونے چاہیں جس کا براہ راست فائدہ افغان عوام کو پہنچ سکے۔ اور وہ نہیں سمجھتیں کہ گزشتہ دو سالوں میں کسی نے بھی افغان عوام کی مشکلات کو سنجیدہ لیا ہو۔
ان کے بقول زمینی صورت حال کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو افغان عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے ان کے بقول وہ حقوق جو انہیں اسلام، شریعت، انسانیت اور افغان روایات انہیں فراہم کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ حقوق خواتین سے چھین لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اب خواتین کے گھروں سے نکلنے، لباس اور چال چلن کے حوالے سے بھی مختلف پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
شنکئی کڑوخیل کے مطابق جب تک افغانستان سے متعلق کانفرنسوں میں خواتین کی تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق کے مسائل کو سرفہرست موضوعات میں شامل نہیں کیا جائے گا ایسی کوئی بھی کانفرنس افغانستان میں حقیقی معنوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتی ہے۔
ان کے بقول افغانستان میں ایک پائیدار حکومت کے لیے انٹرا افغان ڈائیلاگ کی شدت سے ضرورت ہے جہاں تمام افغان مل بیٹھ کر مستقبل کا لائحہ عمل واضع کریں جس کے تحت مستقبل کے حکومتی امور چلائیں جائیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان حکام کی جانب سے ہر نیا حکم جاری ہونے پر افغان خواتین کو گرفتاری، ہراسانی اور مزید سزا کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
افغان خواتین کو درپیش حالات کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق نفاذ قانون کے اقدامات سے عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان کے لیے بیرون خانہ سرگرمیوں میں شرکت مزید مشکل ہو گئی ہے۔ ملکی حکام نے اب تک 50 سے زیادہ ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں جن سے خواتین کے حقوق اور وقار پر براہ راست زد پڑتی ہے۔
اس جائزے کا اہتمام یو این ویمن، عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) نے کیا ہے جس میں 745 افغان خواتین سے بات چیت کی گئی تھی۔
جائزے میں شرکت کرنے والی بعض خواتین نے کہا کہ اگر عالمی برادری افغانستان کے لیے انسانی امداد کو خواتین کی زندگی بہتر بنانے اور انہیں مواقع کی فراہمی سے مشروط کرے تو حالات میں بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
فورم