برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا کے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کو جرمن آمر ایڈولف ہٹلر کی یہودیوں کے ساتھ سلوک سے موازنے کے بیان پر دونوں ممالک میں پیدا ہونے والی سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسرائیل نے اس بیان پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے صدر لولا کو ’ناپسندیدہ' شخصیت قرار دے دیا ہے۔
دوسری جانب برازیل کی وزارتِ خارجہ نے اسرائیلی سفیر کو طلب کیا ہے جب کہ اسرائیل کی جانب سے صدر لولا کے بیان پر باضابطہ احتجاج کے بعد برازیل نے تل ابیب سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا ہے۔
اس تنازع کا آغاز پیر کو صدر لولا ڈی سلوا کے اس بیان کے بعد ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’غزہ کی پٹی میں جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملی۔‘‘
ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں افریقن یونین سمٹ کے اختتام پر لولا نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے جنگی جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس کی ایک مثال ملتی ہے جب ہٹلر نے یہودیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
اس بیان پر پیر کو اسرائیلی وزیرِ خارجہ یسرائیل کاٹز نے کہا تھا کہ جب تک صدر لولا اپنا بیان واپس نہیں لیتے مشرقِ وسطیٰ میں ان کا خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔
یسرائیل نے صدر لولا پر الزام عائد کیا ہے کہ اُنہوں نے ہولو کاسٹ کو ’کم اہم‘ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جس سے یہودیوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔
وزیرِ خارجہ کاٹز نے برازیل کے اسرائیل میں سفیر فریڈریکو مایر کو لولا ڈی سلوا کے بیان پر اپنے ردِ عمل سے آگاہ کرنے کے لیے یروشلم میں قائم ہولو کاسٹ میموریل پر طلب کیا تھا۔
اس کے جواب میں برازیل کے وزیرِ خارجہ نے برازیل کے لیے اسرائیل کے سفیر ڈینئل زون شائن کو طلب کیا اور اسی شام اسرائیل سے اپنے سفیر مایر کو ملک واپس بلا لیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ برازیل کے وزیرِ خارجہ اور اسرائیلی سفیر کے درمیان ’تلخ مگر مناسب‘ گفتگو ہوئی ہے۔
اس گفتگو میں برازیلین وزیرِ خارجہ نے اسرائیل میں اپنے سفیر کی طلبی اور ان کے ساتھ سلوک کو قابلِ اعتراض قرار دیتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اسرائیل میں برازیلین سفیر کو احتجاجی بیان عبرانی میں پڑھ کر سنایا گیا اور انہیں مترجم بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے اپنے سفارتی ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے صدر لولا کے بیان پر ردِعمل کے باوجود برازیل اس سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
جی ٹوئنٹی اجلاس
بائیں بازو کے سیاست دان 78 سالہ لولا کا اسرائیل سے متعلق بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب برازیل میں دنیا کے بڑے معاشی ممالک کے گروپ جی 20 کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونے والا ہے۔
بدھ اور جمعرات کو ہونے والے اس اجلاس میں امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے اور متوقع طور پر غزہ کا تنازع ایجنڈے پر ہو گا۔
غزہ میں جنگ گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ 'اے ایف پی' کے مطابق حماس کے حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس کے علاوہ حماس کے جنگ جوؤں نے 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 130 تاحال غزہ میں ہیں جب کہ اسرائیل کے مطابق 30 کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے جوابی حملے شروع کیے تھے جن میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق 29 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیاسی تقسیم
حماس کے حملے کے بعد صدر لولا ڈی سلوا نے اسے ’دہشت گردی‘ کا اقدام قرار دیا تھا۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کی کارروائیوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بھی بنانا شروع کر دیا تھا۔
اسرائیل سے متعلق ادیس بابا میں دیے گئے بیان پر بھی انہیں اپنے ملک میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
برازیل اسرائیل انسٹی ٹیوٹ نے صدر لولا کے بیان کو ’بے ہودہ‘ قرار دیا ہے اور اس سے اینٹی سیمیٹنزم کو بڑھاوا ملنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اسرائیلی کنفیڈریشن آف برازیل نے غزہ کی صورتِ حال کے ہولوکاسٹ سے موازنے کو حقائق کو مسخ کرنے اور اس سانحے سے گزرنے والوں کے لواحقین کی دل آزاری کا سبب قرار دیا ہے۔
ہٹلر کے دورِ اقتدار میں جرمنی میں ہولوکاسٹ کے دوران منظم انداز میں 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا جو اس وقت دنیا میں یہودیوں کی آبادی کا ایک تہائی بنتا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی ریاست اسرائیل نے ہولوکاسٹ کے ہزاروں متاثرین کو بلا لیا تھا۔
برازیل میں موجود طاقت ور ایوینجلیکل مسیحی برادری نے بھی صدر لولا کے بیان کی مذمت کی ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔
فورم