رسائی کے لنکس

پاکستان میں سیاسی استحکام نہ آیا تو آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ مشکل ہوگا، فچ کی رپورٹ


فچ کا کہنا ہے کہ مسلسل سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی بات چیت کو مزید طول دے سکتا ہے۔(فائل فوٹو)
فچ کا کہنا ہے کہ مسلسل سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی بات چیت کو مزید طول دے سکتا ہے۔(فائل فوٹو)

امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی غیر یقینی کی صورتِ حال کے باعث بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے نیا معاہدہ طے پانا بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

فچ نے پیر کو جاری اپنی رپورٹ میں کہا کہ مارچ میں آئی ایم ایف کا موجودہ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ ختم ہونے کے بعد کریڈٹ پروفائل کو بہتر بنانے کے لیے نئی ڈیل کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔

تاہم رپورٹ میں اس امید کا اظہار نظر آتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے چند مہینوں میں یہ ڈیل حاصل تو کر لے گا لیکن طویل مذاکرات یا ڈیل نہ بننے کی صورت میں ملک کے ڈیفالٹ کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلسل سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی بات چیت کو مزید طول دے سکتا ہے جس کے باعث دو طرفہ شراکت داروں کی جانب سے امداد یا اصلاحات کے نفاذ میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

اگرچہ حالیہ مہینوں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نو ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر رپورٹ کیے ہیں تاہم یہ ذخائر ابھی بھی ادائیگیوں کے لحاظ بہت کم ہیں۔

پاکستان کے 271 ارب ڈالر کے قرض اور ادائیگیاں

اسلام آباد میں موجود تھنک ٹینک ’تبادلیب‘ کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمارکے مطابق پاکستان کے ذمے 271 ارب ڈالر کے قرضے اور دیگر بیرونی ادائیگیاں ہیں۔

ان واجبات کی مالیت پاکستانی کرنسی میں 77 ہزار ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کا 76 فی صد سے بھی زائد ہے۔ پاکستان کے 271 ارب ڈالر کے قرض اور واجبات میں سے حکومت کے ذمے 135 ارب ڈالر کے قرضے ہیں۔

اگر صرف بیرونی قرضوں کی بات کی جائے تو یہ پاکستان کے کُل جی ڈی پی کا 42 فی صد تک پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں 2011 سے 2021 تک مسلسل اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستان کے ذمے پیرس کلب اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بعد 19 فی صد قرضے بائی لیٹرل ہیں یعنی یہ قرض کسی ایک ملک کی جانب سے پاکستان کو فراہم کیا گیا ہے۔

اس میں 14.8 ارب ڈالر یعنی 59 فی صد چین اور 16 فی صد سے زائد جاپان کا قرض ہے جب کہ اس فہرست میں امریکہ( ایک ارب ڈالر)، جرمنی (1.1 ارب ڈالر)، سعودی عرب (1.8 ارب ڈالر) اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔

ہر پاکستانی تین لاکھ 21 ہزار کا مقروض

فچ کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ 12 سال میں پاکستانیوں پر فی کس قرض میں 36 فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ 823 امریکی ڈالر سے بڑھ کر 1122 ڈالر ہو چکا ہے۔ اس دوران پاکستانیوں کی فی کس آمدن 6 فی صد کم ہو کر 1223 امریکی ڈالر ہو چکی ہے۔ جو سال 2011 میں 1295 امریکی ڈالر تھی۔

اس اعتبار سے پاکستان کی آمدن کے مقابلے میں قرض بڑھنے کی رفتار کافی تیز ہے اور اس سے مزید قرض کی ضرورت بھی پیدا ہوتی ہے۔

اگر اس کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کیا جائے تو 12 سال میں اس میں ساڑھے چار گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اب ہر ایک پاکستانی پر 3 لاکھ 21 ہزار 341 روپے کا قرض واجب الادا ہے۔

رواں سال کتنا قرض لوٹانا ہے؟

سال 2011 سے اب تک پاکستان کا بیرونی قرضہ تقریباً دگنا ہو چکا ہے اور اندرونی قرضہ چھ گنا بڑھ گیا ہے۔

صرف اس مالی سال یعنی 2024 کے دوران پاکستان کو مجموعی طور پر 49.5 ارب ڈالر قرض میچور ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جس میں سے 30 فی صد سود کی رقم بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سماجی تحفظ، صحت، تعلیم اور آب و ہوا سے متعلقہ آفات کے لیے مزید رقم کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معیشت بیرونی خطرات کا شکار ہے جس سے فنانشل مارکیٹ عدم استحکام کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ پاکستان کا انحصار بیرونی فنڈنگ پر بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب ملک میں ٹیکس کلیکشن جی ڈی پی کے محض 9.1 فی صد ہے۔

مسئلے کی جڑ کیا ہے؟

معاشی ماہر اور تجزیہ کار عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ دو دہائیوں سے پاکستان کا انحصار درآمدات پر زیادہ ہے اور ملک کے اندر پیداوار کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق ظاہر ہے درآمدات کے لیے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے تو جب ملک کے پاس خود ڈالرز نہیں ہوں گے تو ڈالر بطور قرض لیے جاتے ہیں۔ لیکن قرض لینے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اب مزید قرض لینے کی سکت ختم ہوتی جا رہی ہے اور چوں کہ پاکستان میں درآمدات سے معیشت کو بڑھایا جا رہا تھا اس لیے پیدواری صلاحیت بھی کم ہو چکی ہے۔

عمار حبیب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ لوگ تجارت سے پیسے بنا رہے ہیں لیکن کوئی نئی پیدوار شروع نہیں کی جا رہی۔

’سیاسی استحکام کے بغیر آگے بڑھنا ناممکن‘

اس سوال پر کہ اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ عمار حبیب کا کہنا تھا کہ پہلے ملک میں سیاسی استحکام لانا ہو گا۔ اس کے بعد ایسی پالیسیز لانی ہوں گی جس سے درآمدات کم اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس کے لیے ہمیں زرعی اور صنعتی پیدوار بڑھانا ہو گی۔ اس سے پہلے بہتری کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ یہ ایک رات میں ممکن نہیں ہو پائے گا بلکہ اس کے لیے مستحکم حکومت چاہیے ہو گی اور اس کے اثرات بھی دو سے تین برس میں ظاہر ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلا راستہ نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا ہے۔ اس کے بغیر پاکستانی معیشت کو قرضوں کے موجودہ جال سے نکلنا ناممکن ہے۔

ان کے بقول، ظاہر ہے کہ اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط بہرحال ماننا پڑیں گی۔ اخراجات کم کرنے ہوں گے، آمدن بڑھانی پڑیں گی، ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا اور مالیاتی نظم و ضبط لانا ہوگا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG