|
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے خبردار کیا ہے کہ والدین بچوں کے اسکرین پر گزارے جانے والے وقت کو محدود اور کنٹرول کریں ورنہ بچوں کو آن لائن ہراسانی جیسے خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ان خطرات کا اظہار 'نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ' (این سی آر سی) نے حال ہی میں جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ بچوں کو آن لائن ہراسانی سے بچانے کے لیے حکومتی اداروں، عدلیہ اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی آٹھویں بڑی آبادی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ والدین اور گارڈینز بچوں کے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق آن لائن ہراسانی کے واقعات میں 11 سے 15 سال تک کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں بچے نہیں بلکہ والدین ذمے دار ہیں جنہوں نے بچوں کو آن لائن رہنے کے لیے موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات کی اجازت دے رکھی ہے۔
کمیشن نے یہ رپورٹ 'پاکستان میں بچوں کے آن لائن تحفظ کے حالات کا تجزیہ' کے نام سے جاری کی ہے۔
این سی آر سی کا کہنا تھا کہ بہت سے بچوں کو موبائل فون، ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہوئی جس سے اُن کی معلومات میں اضافہ ہوا لیکن وہیں انہیں کئی خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "بچوں کو ایسے نامناسب مواد تک بھی رسائی حاصل ہو جاتی ہے جو انہیں جنسی زیادتی اور استحصال سمیت تشدد کے لیے انتہائی کمزور بنا سکتی ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی نئی آڈیو اور ویڈیو سہولیات نے آن لائن شکاریوں کو بچوں کو نشانہ بنانے اور ان کے استحصال کے مختلف طریقے بھی فراہم کیے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی مدد سے بچوں کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعات نے بچوں کو سائبر کرائم سے بچانے کے لیے کوششوں کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
این سی آر سی رپورٹ میں صوبائی حکومتوں کو بچوں کے تحفظ کی پالیسیاں مؤثر بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ بچوں سے جڑے اس مسئلے کا نہ صرف قانونی فریم ورک کے ذریعے بلکہ تیکنیکی ذرائع سے بھی تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
زیادہ اسکرین ٹائم بچوں کی صحت کے لیے مضر
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچے جتنا زیادہ وقت اسکرین پر گزارتے ہیں، یہ اتنا ہی غیر صحت بخش ہوتا ہے اور انہیں آن لائن ہراسانی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور والدین کے لیے ضروری ہے کہ ان خطرات سے بچوں کو آگاہ کریں۔
رپورٹ میں ہراساں کرنے کے مختلف طریقوں کے بارے میں بات کی گئی ہے جن میں 'سائبر دھونس' کا بھی تذکرہ ہے۔ یعنی جب کوئی اجنبی شخص جان بوجھ کر تکلیف دہ پیغامات یا تصاویر بھیج کر یا ویب سائٹس پر ان کے بارے میں منفی چیزیں پوسٹ کر کے کسی کو ہراساں کرتا ہے۔
اس کے علاوہ 'سیکسٹنگ' یعنی فون، ایپ، ای میل یا ویب کیم جیسی ٹیکنالوجی کے ذریعے جنسی پیغامات بھیجنا اور وصول کرنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جنسی بھتہ خوری کا بھی ذکر گیا گیا ہے جس میں کسی بالغ یا بچے سے اس کی تصاویر یا ویڈیوز حاصل کر کے اس کے عوض جنسی خواہشات پوری کرنا یا رقم کے لیے بلیک میل کرنا شامل ہے۔
این سی آر سی نے سفارش کی ہے کہ ایف آئی اے اور پولیس کو بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کا پتا لگانے، جانچنے اور تجزیہ کرنے کے لیے اضافی نفری، بجٹ، تیکنیکی اور مالی معاونت کے ساتھ مضبوط کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت ایف آئی اے کے پاس مناسب عملہ، ماہرین اور آلات نہیں ہیں کہ وہ ڈیجیٹل شواہد کو تیز رفتاری سے جمع کر سکیں۔ لہذا کمیشن کی طرف سے تجویز کیا گیا ہے کہ حکومت کو ایف آئی اے کی جانب سے قائم کردہ 1991 کی ہیلپ لائن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
کمیشن کے مطابق ہیلپ لائن کو بڑے پیمانے پر عام کیا جانا چاہیے، بشمول اسکولوں اور دیگر عوامی مقامات پر جن تک بچے، اسپتالوں، ٹرانسپورٹ، بازاروں وغیرہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز اور ایسا بہت سا مواد پاکستان سے اپ لوڈ بھی کیا جاتا ہے۔
بچوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم
سال 2021 میں ایف آئی اے کو 133 جب کہ 2022 میں 187 شکایات موصول ہوئیں۔ سال 2023 میں 250 شکایات موصول ہوئیں۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم 'ساحل' کے میڈیا ایڈوائزر امتیاز احمد سومرا کہتے ہیں کہ آن لائن ہراسانی سے سب سے زیادہ 11 سے 15 سال تک کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ سب سے خطرناک عمر ہوتی ہے اور اس عمر میں والدین اساتذہ اور بچوں کے گارڈین کو بہت زیادہ محتاط رہنا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ کوئی بھی بچہ اگر آن لائن متاثر ہوتا ہے تو اس میں بچے کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کے والدین اس بات کے ذمے دار ہیں۔
اُن کے بقول سب سے پہلے بچوں کو موبائل فونز لے کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ کون سا مواد دیکھ رہے ہیں اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اگر والدین یہ سب نہیں کرتے تو کسی واقعے کی صورت میں والدین ہی ذمے دار سمجھے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو تحفظ صرف اس صورت میں مہیا کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کی حفاظت کے ذمہ دار ان کے والدین، اساتذہ اور بچے کے قریب موجود لوگوں میں اس بارے میں شعور پیدا کیا جائے۔
امتیاز سومرا کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ایف آئی اے اس حوالے سے بہتر کام کر رہا ہے اور موجودہ قوانین میں بھی سختی ہے اور کسی بھی شخص کو ایسا جرم ثابت ہونے کی صورت میں ناقابلِ ضمانت دفعات کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔
فورم